سورۃ ابراہیم: ایک مختصر تعارف
یہ سورہ 52 آیات اور 7 رکوع پر مشتمل ہے؛ توحید، رسالت آخرت اور شکر و بندگی کی دلنشیں تعلیم سے لبریز یہ مکی سورت، آیت 35 کے فقرے ’’وَاِذ قَالَ اِبرَاہِیمُ رَبِ اجعَل ھٰــذَا البَلَدَ اٰمِنا‘‘ … سے ماخوذ ہے۔
محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار۔ فون نمبر : 9849099228
یہ سورہ 52 آیات اور 7 رکوع پر مشتمل ہے؛ توحید، رسالت آخرت اور شکر و بندگی کی دلنشیں تعلیم سے لبریز یہ مکی سورت، آیت 35 کے فقرے ’’وَاِذ قَالَ اِبرَاہِیمُ رَبِ اجعَل ھٰــذَا البَلَدَ اٰمِنا‘‘ … سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورۃ میں حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے۔ بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے نام کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورۃ جس میں ابراہیم ؑ کا ذکر آیا ہے۔(یہ سورۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی جبکہ حالات انتہائی مشکل ترین تھے)
اس سورۃ کا آغاز اس حقیقت کے بیان سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ صحیفہ رشد و ہدایت دے کر اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو گمبھیر اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی کی طرف لے آئیں تاکہ لوگ عزیز و حمید پروردگار کی راہ پر پورے یقین کے ساتھ گامزن ہوسکیں۔ اس کے معاً بعد یہ بتادیا کہ منکرین حق گونا گوں بیماریوں کا شکار ہیں۔ اُنھوں نے آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی دائمی نعمتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور فانی زندگی کی آسائشوں اور آرائشوں پر فریفتہ ہوگئے ہیں نیز خود بھی ضلالت میں سرگرداں ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی حق کو قبول کرنے سے روکتے ہیں مزید برآں اس دین حق کو اس غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی رغبت ہی ختم ہوجائے۔
موسیٰ علیہ السلام کا اختصار سے ذکر کیا گیا کہ وہ تورات کو لے کر آئے تاکہ لوگوں کو شاہراہِ ہدایت پر گامزن کریں۔ آپ نے اپنی احسان فراموش قوم کو اپنے رب کریم کے بے پایاں انعامات کی یاد دلائی اور شکریہ ادا کرنے کی ترغیب دی۔ کفار کو تنبیہ کی کہ جو رویہ تم نے اختیار کر رکھا ہے ، جو سلوک تم میرے رسول کے ساتھ کررہے ہو اسی قسم کا سلوک تم سے پہلے کفار نے بھی اپنے اپنے انبیاء کے ساتھ کیا تھا ، اُنھوں نے بڑی بے باکی اور ڈھٹائی سے اپنے رسولوں کو کہا تھا کہ بیشک تم دلائل کے انبار لگادو، جس قسم کے معجزات چاہو ہمیں دکھاؤ ہم کسی قیمت پر ایمان نہیں لائیں گے۔ بلکہ ہم تمہیں یہاں سے جلاوطن کردیں گے ۔
اُنھوں نے بڑے گستاخانہ لہجے میں یہ بھی کہا تھا کہ تم ہماری طرح بشر ہی تو ہو کفار نے اپنے نبیوں کی دعوت کو ناکام بنانے اور اپنے نبیوں کو زبردستی ملک بدر کرنے کے منصوبوں پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا لیکن اللہ تعالیٰ کے غضب نے انھیں مزید مہلت نہ دی۔ وہ تمام کے تمام ہلاک و برباد کردیئے گئے۔ ان کے شاندار مکانات ، حویلیاں ، اللہ تعالیٰ کے اُن بندوں سے آباد ہوگئیں جنھیں وہ حقیر اور کمزور سمجھا کرتے تھے۔ محشر کو پیش آنے والے واقعات کا نقشہ اس تفصیل اور اثرانگیز انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی میں حق پذیری کی ادنیٰ سی صلاحیت بھی ہو تو وہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
روز محشر منکرین کی جو حالت ہوگی وہ حواس باختہ پریشان حال سر اُٹھائے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوں گے۔ پیپ کا پانی انھیں پینے کیلئے ملے گا۔ ہر طرف سے موت انھیں اپنے نرغہ میں لیتے ہوئے محسوس ہوگی لیکن وہ مریں گے نہیں۔ اس روز قوم کے رؤسا اور انکے فرمانبرداروں میں جو کڑوا کسیلا مکالمہ ہوگا اس کو بھی بیان کردیا تاکہ لوگ ابھی سے محاسبہ کرلیں اور کسی ایسے شخص کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری شروع نہ کردیں، جو روز قیامت ان کیلئے حسرت وندامت کا باعث ہو۔ اس کے ساتھ ہی شیطان جس کی ساری عمر وہ فرمانبرداری کرتے رہے اور وہ انھیں طرح طرح کی لالچ دیتا رہا۔ اس روز جب تمام اسرار آشکار ہوں گے تو شیطان ان لوگوں کی جو عمر بھر اس کے اشارۂ آبرو پر اپنی متاع ہوش و خرد کو نثار کرتے رہے ، جو حوصلہ شکن جواب دے گا وہ بھی اپنے اندر ہزاروں عبرتوں کے سامان رکھتا ہے۔
وہ صاف صاف انھیں کہہ دے گا جو وعدے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ کئے وہ اس نے پورے کردیئے لیکن جو وعدہ میں نے تمہارے ساتھ کیا میں اس کو پورا نہیں کرسکتا۔ مجھے ملامت کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ میں نے تو تمہیں گمراہ کرنا تھا ، گمراہ کرلیا۔ یہ تمہارا کام تھا کہ اپنی عقل و خرد سے کام لیتے، اللہ تعالیٰ کے نبی کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہتے۔ اب اپنی نادانی کی سزا بھگتو اور اپنے آپ کو کوسو ، اس کے بعد (اس سورۃ) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کا تذکرہ ہے۔ ان کی پیاری پیاری دعائیں ہیں جو اُنھوں نے بڑے خلوص و نیاز سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عظمت میں پیش کیں۔
کعبہ کے شہر کیلئے اس شہر کے مکینوں کیلئے اپنی اولاد کی ہدایت اور رزق حلال کیلئے التجائیں کیں۔ ساتھ ہی عرض کیا کہ الٰہی اس لق و دق صحرا اور اس بے آب و گیاہ بیاباں میں تیرے گھر کے پڑوس میں ، میں نے اپنی اولاد کو اسلئے بسایا ہے کہ وہ تیری عبادت کرتے رہیں۔ الٰہی لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور لگن پیدا کردے تاکہ وہ ان کے پاس کھچ کھچ کر چلے آئیں۔ یہ وادی جہاں سرسبز و شادابی کا دور دور تک نشان نہیں، اس وادی میں رہنے والوں کو کھانے کیلئے تازہ پھل عطا فرما۔
سورۃ کے اختتام پر قیامت کے روز کفار کی حالت زار کا نقشہ کھینچ کر لوگوں کو تنبیہ کردی گئی کہ اگر تم اس روز اس عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو جو پیغام دے کر سارے انسانوں کو خبردار کردیا جارہا ہے اس سے نصیحت حاصل کرو، عقلمندی سے کام لو اور ہوش میں آجاؤ۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر دنیا کا کوئ بھی آدمی دل کی گہرائیوں اور تدبر وتفکر کی نظر سے سورہ مذکور کا مطالعہ کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو صرف اس لیے بھیجتا ہےکہ اسکے بندے گمراہی سے کنارہ کش ہوکر اللہ کی بندگی کےلیے آمادہ وتیار ہوجائیں تاکہ صراط مستقیم کی راہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مقصد سے آخری نبی و انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کو ختم فرمانے والی کٹری کے طور پرمبعوث فرماے گئے ہیں۔ اب جو بھی آپ کی لائی ہوئی دعوت کو قبول نہیں کرے گا۔۔۔ وہ بھی اسی طرح نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوجاے گا جس طرح پہلے کے گزرے ہوے نافرمان لوگو ں نے اپنے زمانے کےانبیاء کو جھٹلاکر اور نافرمانی کرکے انجام بد کو پہنچ چکے لہذا ہوشیار وخبردار ہوجائو!۔
شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے لیکن انسان انبیاء کی ناقدری اور اپنی نادانی ،حماقت و جہالت کے طفیل اس کھلے دشمن کو اپنا رفیق و دوست بنالیتا ہے، یہی جھوٹا ومکار دوست (شیطان) کل روز قیامت اپنے ہاتھ اٹھالے گا یعنی اللہ تعالیٰ کے آگے دم نہ مارسکے گا اور نہ اپنے پیروؤں کی مدد کرسکے گا۔۔۔ بتانا مقصود یہ ہیے کہ جو لوگ اللہ کے احکامات بذریعہ انبیاء جو پہنچاے جاتے ہیں اسے فراموش کرکے کل روز قیامت اپنے آپکو کو بے یار ومدد گار خالی ہاتھ پائیں گے۔
پھر سورہ کے اختتام پر منکرین حق ، کفار ومشرکین کی تصویر سامنے رکھتے ہوے بتلادیا گیا کہ لوگو تم اپنے آپ کو ان مشکل و ناقابل برداشت حالت (جہنم)سے بچنا چہاتے ہو تو "حق واہل حق کی” مخالفت چھوڑ دو۔ لہٰذا سارے انسانوں کے لیے یہ قرآن مجید اب بھی وہی تعلیم پیش کررہا ہے جو تمام انبیاء علیہ السلام پیش فرماچکے ہیں، اور اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی آخری پیغام قرآن کی کی شکل میں قیامت تلک کے لیے بھیجا گیا ہےاب اس کے ذریعہ سے خبر دار ہوجاؤ کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے، اسکے سواء کوئی معبود یکتا نہیں ہے ! عقل سے کام لو اسلام کی دعوت سے عداوت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و مخالفت چھوڑدو اور اللہ کے سچے بندے بن جاؤ!!!
(مستفاد کتب تفسیر)
٭٭٭