
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس اس وقت اپنے تنظیمی انتخابات کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ پارٹی کے لیے اس وقت سب سے اہم چیلنج کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب ہے۔ 2019کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی ناقابل ِیقین شکست کے بعدراہول گاندھی نے بحیثیت پارٹی صدر اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اُ س وقت سے اب تک کانگریس کاکوئی مستقل صدر نہیں ہے۔ سونیا گاندھی 2019 سے عبوری صدر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔ اتنی قدیم اور اہم پارٹی کا اتنے عرصہ سے مستقل صدر کا نہ ہونا ، کانگریس کے اندر پائے جانے والے قیادت کے بحران کو ظاہر کرتا ہے۔ بی جے پی ، اب تک یہی طعنہ دیتی آرہی کہ جس پارٹی میں اہم فیصلے کرنے کے لیے صدر ہی موجود نہ ہو وہ پارٹی ملک میں دوبارہ حکمران بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ کانگریس پارٹی میں بھی کانگریس کی صدارت کو لے کر کافی ہنگامے ہو تے رہے اور اس کے نتیجہ میں پارٹی کے سینئر قائدین کا ایک ناراض گروپ بھی ابھر کر سامنے آیا۔ اس گروپ کی جانب سے سونیا گاندھی سے نمائندگی کرتے ہوئے جلد از جلد مستقل صدر کے لیے الیکشن کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا، لیکن صدر کے انتخاب کا مر حلہ آنے سے پہلے ناراض گروپ کے بعض قائدین نے پارٹی ہی چھوڑدی۔ ان میں کانگریس کے سابق سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کا نام نمایاں ہے۔ وہ اگر آج پارٹی میں ہو تے تو انہیں بھی ایک بہترین موقع تھا کہ وہ کانگریس صدر کے لیے انتخاب میں حصہ لے سکتے۔ لیکن انہوں نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو خیرباد کردیا اور اپنی نئی پارٹی کی داغ بیل ڈال دی۔ کانگریس کے تنظیمی انتخابات پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے ، لیکن اس وقت پورے ملک میں کانگریس کے صدر کا انتخاب توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔یہ انتخاب اس لیے دلچسپ بن گیا کہ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے دوبارہ صدر بننے سے انکار کردیا ہے۔ کانگریس کے مختلف حلقے انہیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ریاستی کانگریس کمیٹیوں کی جانب سے ان کو صدر بنانے کے حق میں قراردادیں بھی منظور کی جا رہی ہیں ۔ پارٹی صدارت کے لیے بڑھتے ہوئے اصرار کے باوجود راہول گاندھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ کانگریس کے صدارتی انتخاب سے زیادہ بھارت جوڑو یاترا میں مصروف ہیں۔ 7 ستمبرسے انہوں نے اس یاترا کا آغاز کیا ہے۔ یہ یاترا کنیا کماری سے کشمیر تک نکالی جا رہی ہے۔ 148دن کی اس یاترا میں ملک کی کئی ریاستوں کا احاطہ کیا جائے گا اور ملک سے نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کی جائے گی۔ راہول گاندھی نے اس یاترا کو غیر سیاسی قرار دیا ہے، لیکن کوئی بھی سیاسی پارٹی کی مہم غیر سیاسی نہیں ہوتی ہے۔ اس یاترا کے بھی سیاسی مقاصد ہیں۔ اس کے ذریعہ کانگریس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا ئے گی تا کہ آنے والے عام انتخابات میں وہ اپنے کھوئے مقام کو پھر حاصل کر سکے۔ اس یاترا کو عوامی تائید بھی مل رہی ہے۔ ایک طرف راہول گاندھی اپنی یاترا کے ذریعہ بی جے پی کے ایجنڈے کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف پارٹی قائدین کانگریس صدارت کے لیے آپس میں سر پھٹول میں مصروف رہیں گے تو راہول گاندھی کی اس یاترا سے پارٹی کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکے گی۔ صدر کا انتخاب متفقہ ہوتا تو یہ بات پارٹی کے لیے بہتر تھی ،لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔ پارٹی کے کئی سینئر قائدین کانگریس صدر بننے کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ کانگریس صدر کے انتخاب کے لیے شیڈول بھی جا ری کر دیا گیا ہے۔ پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب 17 اکتوبر کو ہوگا۔ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر ہے۔ 19 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ دو دن پہلے تک راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے ابھر رہے تھے۔ گاندھی خاندان سے ان کی قربت کے بھی بہت چرچے تھے، لیکن گزشتہ اتوار کو جئے پور میں ہوئے سیاسی ڈرامے کے بعد گہلوٹ کی امیج کا فی خراب ہو گئی ہے۔ انہوں نے راجستھان میں چیف منسٹری کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کی خاطر اپنے وفادار اراکین اسمبلی کی طاقت کا جس انداز میں مظاہرہ کیا، اس کا پارٹی ہائی کمان نے سخت نوٹ لیتے ہوئے گہلوٹ کو اپنی اوقات بھی بتادی۔ اس ہنگامہ آرائی کے بعد اشوک گہلوٹ نے پارٹی قیادت سے معافی بھی چاہ لی، لیکن پارٹی کا مخالف گروہ انہیں صدارت کے عہدے پر بھی اطمینان سے رہنے نہیں دے گا۔ پارٹی امیدوار بننے سے پہلے ہی ان کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ ان کی اپنی ریاست راجستھان میں سچن پائلٹ ان کے کٹر حریف ہیں۔ ان دونوں کی آپسی مخاصمت کا خمیازہ آنے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کے امیدواروں کو بھگتنا پڑے گا۔ اشوک گہلوٹ ایک گھاگ سیاستدان ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ریاست کی باگ ڈور ایک نوجوان سچن پائلٹ کے ہاتھوں میں آ جائے۔ اس لیے وہ صدر کانگریس منتخب ہونے کے بعد بھی راجستھان کے چیف منسٹر بنے رہنا چاہتے ہیں ۔ جب راہول گاندھی نے یہ صاف کر دیا کہ پارٹی میں ایک شخص ایک عہدہ پر عمل کیا جائے گا تو اشوک گہلوٹ کی امیدوں پر پانی پھرگیا۔ اب وہ یہ چاہتے ہیں ان کے کسی وفادار رکن اسمبلی کو چیف منسٹر کا عہدہ دیا جائے تاکہ بالراست ان کا ریاست کی سیاست پر قبضہ باقی رہے۔ اسی لیے وہ شدت سے اپنے ہی پارٹی کے رفیق کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشوک گہلوٹ اب سونیا گاندھی کی پہلی پسند نہیں رہے ہیں۔ ان کا آ شیرواد کسی اور کانگریس قائد کو مل سکتا ہے۔ اسی پس منظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد کانگریس صدر کا انتخاب ہو رہا ہے لیکن اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ منتخب ہونے والا صدرآزادانہ کوئی فیصلہ کر سکے گا۔ کانگریس کے اور دو سینئر لیڈر ششی تھرور اور ڈگ وجئے سنگھ بھی کانگریس صدر کی دوڑمیں شامل ہو گئے ہیں۔ سونیا گاندھی کے اس بیان کے بعدکہ کوئی بھی کانگریسی‘ صدر کے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے ، امیدواروں کی تعدادنامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ تک اور بھی بڑھ سکتی ہے۔ جئے پور میں مرکزی قائدین کی موجودگی میں جو ڈسپلن شکنی ہوئی ہے، اس پر اشوک گہلوٹ کو معاف کردیا گیا ہے اور کلین چٹ بھی دے دی گئی ہے۔ آثاربتا رہے ہیں وہ کانگریس صدر کا الیکشن جیت جائیں گے لیکن مقابلہ سخت ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کانگریس میں موجود دھڑے بندیوں پر قابو پا سکیں گے۔ ان کی پہچان ایک ریاستی لیڈر کی ہے ۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا کانگریس کی قیادت پر غیر گاندھی خاندان کا فرد اپنی گرفت مضبوطی سے رکھ سکے گا؟ ان کے انتخاب سے کانگریس میں برسوں سے جاری خاندانی اجارہ داری کا کیا خاتمہ ہوجائے گا؟ بی جے پی کانگریس پر ہمیشہ یہ الزام لگاتی رہی کہ پارٹی پر گاندھی خاندان کا قبضہ رہا۔ حالانکہ یہ معاملہ صرف کانگریس کا نہیں ہے۔ ملک کی کئی پارٹیوں میں خاندانی راج کا چلن ہے۔ بی جے پی بھی کوئی دودھ کی دُھلی ہوئی نہیں ہے، لیکن "کانگریس مُکت بھارت "کانعرہ دے کر بی جے پی کانگریس کو ختم کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا بھی کرتی رہی کہ کانگریس میں خاندانی راج ہے۔ کانگریس کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اقربا پروری اور چاپلوسی کلچر سے اوپر اٹھ کر ایک ایسے صدر کا انتخاب کر ے جو پارٹی کے ساتھ ملک کو ایک نئی سمت دے کر ترقی کی طرف لے جاسکے۔
کانگریس میں قائدین کی کمی نہیں ہے ، لیکن پارٹی میں اندرونی جمہوریت کے نہ ہونے سے پارٹی ہمیشہ قیادت کے بحران سے گزرتی رہی۔ عہدے کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاداری کو دیکھ کر تقسیم کیے جاتے رہے۔ ایسے قائدین جو عوام میں رہ کر کام کر تے ہیں انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کو عہدہ ملتے ہی اس کے خلاف ایک محاذ تیار ہوجاتا ہے۔ سابق میں ریاستوں کے چیف منسٹرس کو بھی نہیں بخشا جاتا رہا۔ ہر تھوڑے دن بعد چیف منسٹر کی تبدیلی کانگریس کے اچھے دنوں میں بہت عام تھی۔ اب جب کہ اقتدار ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے، کانگریس ہائی کمان کو جلد بازی میں فیصلے کرنے سے گزیز کرنا ضروری ہے۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی اگر واقعی کانگریس صدر کے عہدے سے دلچسپی نہیں رکھتے ہیں تو بعد میں بھی پارٹی کا ریموٹ کنٹرول اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔ منتخبہ صدر کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ پارٹی صدر کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں گاندھی خاندان کی طرف نظریں اٹھائے رکھنے پر مجبور نہ کردیا جائے۔ کانگریس صدر کا عہدہ اگر صرف نمائشی طور پر پُر کیا جائے اور سارے اختیارات سونیا گاندھی، راہول گاندھی یا پرینکا گاندھی کی جانب سے استعمال کیے جائیں تو ایک لمبے عرصہ کے بعد منتخب ہونے والے صدر کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے گی۔ کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونے کے ساتھ اس کی عوامی ساکھ بھی بہتر ہو ۔ اس وقت کانگریس جن ناگفتہ حالات سے دوچار ہے، اس کا اندازہ پارٹی کے قائدین کو اچھی طرح ہے۔ پارٹی اس وقت نازک دور سے گزررہی ہے۔ کانگریس کے لیے حالات کیوںدگرگوں ہوگئے، اس کا بھی محاسبہ پارٹی قیادت کو کرنا لازمی ہے۔ ایک ایسی پارٹی جس نے ملک کی آزادی میں قائدانہ رول ادا کیا اب کیوں گوشہ گمنامی کا شکار ہو تی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہو ئی۔ کانگریس جس زوال اور شکست و ریخت کے دور سے گزر رہی ہے، اس کے ذمہ دار پارٹی کے وہ قائدین ہیں جنہوں نے کانگریس کو اس کے دیرنیہ اصولوں پر قائم نہیں رکھا۔ سیکولرازم کی بجائے نرم ہندوتوا کی پالیسی کانگریس گزشتہ کئی دہوں سے اپنائی ہوئی ہے۔ اکثریتی ووٹوں کو کھونے کے خوف نے کانگریس کو اقلیتوں سے دور کردیا ہے۔ پارٹی کے اقلیتی طبقہ کے قائدین کو بھی شکایت ہے کہ انہیں حا شیہ پر لا دیا گیا ہے۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی اپنی انتخابی مہم کا آ غاز کسی مندر میں پوجا کرکے کرتے ہیں تو اس سے کیا پیغام ملتا ہے۔ سیکولر طرز حکمرانی میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی سیاسی قائد اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کا استحصال کرے۔ کانگریس نے حصولِ اقتدار کے لیے اپنی روایات اور اصولوں کو پیچھے ڈال دیا، لیکن اس سے پارٹی کی قسمت نہیں جاگی۔ کانگریس، بی جے پی کی پالیسیوں کو اپنانے میں لگ جائے گی تو اس سے اس کی وہ پہچان بھی ختم ہو جائے گی جس نے اسے برسوں تک برسر اقتدار رکھا تھا۔ کانگریس موجودہ حالات میں ملک کی بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ ملک سے فسطایت کو ختم کرنے میں کانگریس اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ وہ بی جے پی کا متبادل بھی بن سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی روش ترک کردے۔ کانگریس کے بغیر ملک میں کوئی ایسا محاذ نہیں بن سکتا جو فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دے سکے۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار اور آر جے ڈی کے قائد لالو پرساد یادو نے سونیا گاندھی سے ملاقات کی۔بی جے پی کی زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت کانگریس ایک کرشماتی شخصیت کو اپنا قومی صدر منتخب کرتی ہے تو ملک میں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس لیے کانگریس صدر کا الیکشن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کانگریس صدر کا انتخاب اتفاقِ رائے سے ہوتا ہے تو بہت اچھی بات ہوگی۔٭٭٭