فنِ خوش نویسی ہماری قوم کا قیمتی ورثہ — اس کی حفاظت دینی و تہذیبی فریضہ ہے: پروفیسر مظفر علی شہ میری
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ فنِ خوش نویسی سیکھنے کے لیے شوق، صبر اور یکسوئی تین بنیادی عناصر ہیں۔ خوش نویسی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی اور برداشت نہایت ضروری ہیں۔ پروفیسر شہ میری نے کہا کہ اس فن کا مقصد محض خوبصورت لکھنا نہیں بلکہ قلم کو مضبوط اور فنکار کو صابر بنانا ہے۔
حیدرآباد: ڈان ہائی اسکول ملک پیٹ، حیدرآباد میں فنِ خوش نویسی کی تربیتی کلاس کا افتتاح عمل میں آیا۔ افتتاحی تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر مظفر علی شہ میری، سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول (آندھرا پردیش) نے کہا کہ خوش نویسی ہمارا قومی اور تہذیبی ورثہ ہے اور اس کی حفاظت و ترویج کو دینی فریضہ سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ فنِ خوش نویسی سیکھنے کے لیے شوق، صبر اور یکسوئی تین بنیادی عناصر ہیں۔ خوش نویسی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی اور برداشت نہایت ضروری ہیں۔ پروفیسر شہ میری نے کہا کہ اس فن کا مقصد محض خوبصورت لکھنا نہیں بلکہ قلم کو مضبوط اور فنکار کو صابر بنانا ہے۔
افتتاحی تقریب کا اہتمام ڈان ہائی اسکول ملک پیٹ کے ڈائریکٹر فضل الرحمن خرم نے ادارۂ خوش نویس (بانی: غوث ارسلان) کے اشتراک سے کیا۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ یہ تربیتی کلاسیں ہر اتوار صبح 11 بجے تا دوپہر 1 بجے تک منعقد ہوں گی، جن کی تربیت عالمی شہرت یافتہ خوش نویس غوث ارسلان دیں گے۔
پروفیسر شہ میری نے مزید کہا کہ خوش نویسی سیکھنے والی خواتین کی قابلِ لحاظ تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ فن آئندہ نسلوں میں فروغ پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب قرآن نازل ہوا تو 17 صحابہ کرام خوش نویسی سے واقف تھے، اس لیے یہ فن ایک مقدس روایت کا تسلسل ہے۔
انہوں نے خوش نویسی کے دوران حروف کی درست پیمائش اور تناسب کو سیکھنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے نہ صرف تحریر میں حسن پیدا ہوتا ہے بلکہ سیکھنے والے کی دلچسپی اور اطمینان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
پروفیسر شہ میری نے اپنے ذاتی تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں خوش نویسی کا شوق چوتھی جماعت سے ہوا تھا۔ ان کے والد کی تحریر موتیوں کی طرح جاذبِ نظر تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خوش نویسی سیکھنے کے لیے بنگلور گئے جہاں انہوں نے جمیل پریس اور وطن پریس سے تربیت حاصل کی۔ ان کے ایک مسیحی اُستاد جوب جوسف کی اردو تحریر آج تک ان کے ذہن میں نقش ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں ماضی قریب کے ممتاز خوش نویس سلام خوش نویس اور ضمیر خوش نویس نے اردو سے محبت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اس موقع پر جناب شجیع اللہ فراست (عالمی شہرت یافتہ نیوز براڈکاسٹر 4TV) نے کہا کہ جناب غوث ارسلان خوش نویسی کی دنیا کا معتبر نام ہیں۔ انہوں نے فضل الرحمن خرم کو اس فن کی ترویج کے لیے تربیتی کلاسوں کے اہتمام پر خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ یہ اقدام تمام تعلیمی اداروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
سعودی عرب میں اردو زبان کے فروغ کے لیے خدمات انجام دینے والے ممتاز آرکیٹکٹ جناب سلیم نے کہا کہ جس طرح قرآن کی تلاوت کے لیے تجوید ضروری ہے، اسی طرح تحریر کے لیے خوش نویسی ناگزیر ہے۔
معروف ادیب و سماجی جہدکار ڈاکٹر عابد معز نے خواتین کی بڑی تعداد میں شمولیت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طبقہ اردو کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے اردو دان طبقے کو مشورہ دیا کہ وہ گھروں میں اردو کتابیں رکھیں، بچوں سے اردو میں گفتگو کریں اور زبان کا ماحول پیدا کریں۔
ڈائریکٹر ڈان ہائی اسکول، فضل الرحمن خرم نے کہا کہ ادارہ اردو زبان کے فروغ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہا ہے، اور فن خوش نویسی کی کلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے پروفیسر شہ میری کی اردو خدمات کو سراہا۔
محمد حسام الدین ریاض نے رجسٹریشن کے جاری رہنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی پابندی ہی کامیابی کی کلید ہے۔
محمد رفیع الدین (فوٹو آرٹسٹ، محکمہ سمکیات) نے مشق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی مشق فن میں نکھار لاتی ہے۔
فنِ خوش نویسی کی کلاس میں رجسٹریشن اور تفصیلات کے لیے فون نمبر 9177790509 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔