بھارت

ہزاروں ہندوستانی، میکسیکو کی سرحد سے امریکہ میں داخل ہورہے ہیں

فرار ہونے والے گروپس میں مسلمان، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندوؤں سے لے کر ہندوستان کی ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے افراد شامل ہیں جو انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کے تشدد سے خوف زدہ ہیں۔

واشنگٹن: میکسیکو کی سرحد سے فرار ہو کر بڑی تعداد میں تارکین وطن ہندوستانی، امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران اس راستے سے 16,000 سے زیادہ ہندوستانی تارکین وطن امریکہ میں داخل ہوچکے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ اکتوبر سے شروع ہونے والے 2022 کے مالی سال کے آغاز کے بعد سے، میکسیکو کی سرحد پرریکارڈ 16290 ہندوستانی شہریوں کو امریکی تحویل میں لیا گیا ہے۔ سال 2018 میں پچھلی اعلیٰ ترین سطح (بھاگ کر امریکہ میں داخل ہونے والے ہندوستانیوں کی) 8,997 ریکارڈ کی گئی تھی۔

ماہرین اس اضافے کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان میں ہندوستان میں امتیازی سلوک کا ماحول، وبائی دور کی پابندیوں کا خاتمہ، موجودہ امریکی انتظامیہ کا سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے تئیں مثبت رویہ اور پہلے سے قائم اسمگلنگ نیٹ ورکس میں اضافہ شامل ہیں۔

ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ہندوستانی شہریوں کی نمائندگی کرنے والے امیگریشن وکیل دیپک اہلووالیا نے کہا کہ کچھ تارکین وطن معاشی وجوہات کی بناء پر امریکہ آ رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ظلم و ستم سے بھاگ رہے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق، فرار ہونے والے گروپس میں مسلمان، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندوؤں سے لے کر ہندوستان کی ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے افراد شامل ہیں جو انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کے تشدد سے خوف زدہ ہیں۔ ان میں علیحدگی پسند تحریک کے حامی اور پنجاب کے کسان بھی شامل ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں مخالف کسان تین قوانین کی شدید مخالفت کی تھی۔

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ان میں سے بہت سے گروپوں کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔

ایڈوکیٹ اہلووالیا نے کہا کہ تارکین وطن اکثر امریکہ کو بہتر زندگی کے لئے ’’آخری گیٹ وے‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن ہندوستان اور امریکہ کے درمیان طویل فاصلہ امریکہ کے سفر کو انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔

روایتی طور پر، امریکہ-میکسیکو کی سرحد پر پہنچنے والے ہندوستانی تارکین وطن ‘ڈورٹوڈور’ اسمگلنگ خدمات استعمال کرتے ہیں، جس میں ہندوستان سے جنوبی امریکہ کے سفر کا بندوبست کیاجاتا ہے۔

ہندوستانیوں کی اکثر پورے راستے رہنمائی کی جاتی ہے اور وہ اپنے ساتھی ہم وطنوں کے ساتھ چھوٹے گروپوں میں سفر کرتے ہیں جو ایک ہی زبان بولتے ہیں۔

یہ نیٹ ورک اکثر ہندوستانی ٹراویل ایجنٹس سے شروع ہوتے ہیں جو لاطینی امریکہ میں جرائم گروہوں کو پارٹنر بنانے کے لئے سفرکے کچھ حصوں کو آؤٹ سورس کرتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں مقیم مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک تجزیہ کار جیسیکا بولٹر نے بتایا کہ ہندوستانی تارکین وطن کی تعداد بھی ‘نقل مکانی کی لہرکے اثر’ کے نتیجے میں بڑھ رہی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ان خدمات کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے والے لوگ اپنے دوستوں یا ہندوستان میں رہنے والے اپنے خاندان کو یہی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’’یہ قدرتی طور پر پھیلتا ہے اور زیادہ تارکین وطن کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔‘‘

تاہم یہ سفر آسان نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ تجربہ کار اسمگلروں کی رہنمائی میں، سرحد کا سفر اکثر خطرات سے بھرا ہوتا ہے، مقامی گروہوں یا بدعنوان حکام کے ہاتھوں لٹنے کا خطرہ، ڈکیتی اور رشوت خوری یا شدید موسم کے علاوہ چوٹیں اور بیماریاں جھیل کر لوگ میکسیکو کی سرحد سے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں تاکہ وہ وہاں پناہ حاصل کرسکیں۔

یہاں سے ان کا ایک اور لمبا اور صبرآزما سفر شروع ہوتا ہے تاکہ قانونی طور پر امریکہ میں پناہ حاصل کرسکیں۔ یہ انتظار کئی برسوں پر محیط ہوسکتا ہے۔