حیدرآباد

حکومت‘اقلیتی بہبود کامکمل بجٹ کب خرچ کرے گی؟

اب جاریہ سال‘حکومت کوایسا کونسا علاء الدین کاچراغ مل گیا کہ وہ اب ریاست کی رکی ہوئی ترقی کو جاری رکھنے اورتمام طبقات کے ساتھ انصاف کوممکن بنائیگی۔ ریاستی وزیر فینانس ٹی ہریش راؤکی جانب سے پیش کردہ بجٹ حقیقتاً عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانا جیساہے۔

حیدرآباد: حکومت کی جانب سے قانون ساز اسمبلی میں مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کردیاگیا۔ بجٹ کے حجم کودیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ انتخابی بجٹ ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر شعبہ کے لئے اچھی رقومات مختص کی گئیں۔

متعلقہ خبریں
اسمبلی میں بی آر ایس ایم ایل ایز نے مجھے اکسایا: ناگیندر
تلنگانہ کے قرض میں مزید اضافہ، مقروض ریاستوں کی فہرست میں نمایاں مقام
تلنگانہ میں تنہا کامیابی حاصل کرنے بی جے پی کو شاں: ترون چگھ
حلقہ کاروان میں نلوں سے آلودہ پانی کی شکایت: کوثر محی الدین
اقلیتی بہبود کیلئے2,262 کروڑ مختص

شعبہ زراعت‘ فلاح وبہبود‘ صحت وتعلیم کوحکومت نے اپنی ترجیحات ظاہر کرنے کی کوشش کی‘محکمہ اقلیتی بہبود کیلئے بھی 2200 کروڑروپے مختص کرنے کا اعلان کیاگیا۔

 ظاہری طورپریہ بجٹ بہترین ہے مگر سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومت بجٹ کی اتنی بڑی رقم 2,90,396 لاکھ کروڑ روپے لائیگی کہاں سے؟ اب تک ریاستی حکومت‘مرکز پرریاست کے حصہ کے فنڈس کی اجرائی سے گریز کرتے ہوئے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کاالزام عائد کرتی آئی ہے۔

اب جاریہ سال‘حکومت کوایسا کونسا علاء الدین کاچراغ مل گیا کہ وہ اب ریاست کی رکی ہوئی ترقی کو جاری رکھنے اورتمام طبقات کے ساتھ انصاف کوممکن بنائیگی۔آج ریاستی وزیر فینانس ٹی ہریش راؤکی جانب سے پیش کردہ بجٹ حقیقتاً عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانا جیساہے۔

ہریش راؤ نے اپنی بجٹ تقریر میں ایک جملے پر باربار زوردیاکہ حکومت تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک اور تمام کی ترقی کے لئے سنجیدہ ہے مگر بجٹ میں مختص کردہ رقومات ان کے بیان کی نفی کرتے ہیں۔  

دلت طبقات کوباعزت پروقار زندگی بسر کرنے‘ سماج میں انہیں اچھامقام دلانے کے لئے بجٹ میں 36,750 کروڑروپے مختص کرنے‘ دلت طبقات کے افراد کو101 یونٹس تک برقی مفت فراہم کرنے اوراس مقصد کیلئے 251 کروڑروپے مختص کئے گئے۔

قبائلی طبقات کی بہبود کے لئے 15,233 کروڑ روپے مختص کئے گئے‘قبائلی جاتراؤں کے لئے 354 کروڑ‘قبائلی رہائشی علاقوں میں تھری فیز برقی کی فراہمی کے لئے 221 کروڑ مفت برقی سربراہی کے لئے 192 کروڑ مختص کرنے کا اعلان کیاگیا۔

اسی طرح پسماندہ طبقات کی بہبود کے لئے 6229 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو دھنگر طبقہ‘ماہی گیروں‘ بافندوں‘ تاسندوں جن تمام کاتعلق پسماندہ طبقات سے ہے‘ کے لئے علحدہ علحدہ رقومات مختص کی گئیں۔ بجٹ میں بتایا گیا کہ کلیان لکشمی اورشادی مبارک کے لئے 3210 کروڑروپے مختص کئے گئے‘ مگر جب محکمہ اقلیتی بہبود کاذکر آتاہے توحکومت دوسرے طبقات کوایک سال میں مختص کردہ رقومات کا10فیصد بھی مختص نہیں کیا جاتا۔

بجٹ میں گزشتہ 8سالوں کے دوران اقلیتی بہبود پر خرچ کردہ 8581 کروڑ روپے کا حساب دکھایا جارہاہے مگر ایسا ایس سی‘ ایس ٹی اور بی سی طبقات کے لئے گزشتہ 8سالوں کے دوران خرچ کردہ رقومات کوپوشیدہ رکھا گیا ہے۔ جاریہ بجٹ میں صرف دلت بندھو اسکیم کے لئے 17,700 کروڑ روپے مختص کئے گئے‘جس کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو رشک ہورہا ہے۔

 ہمارا احساس اور مکمل یقین ہے کہ آئندہ دودہوں کے دوران بھی اقلیتی بہبود پر 17,700 کروڑ روپے خرچ نہیں کئے جائیں گے۔اگرحکومت مختص کردہ 2200 کروڑ روپے مکمل طورپرخرچ کردے تو مسلمانوں پربہت بڑا احسان ہوگا۔واضح رہے کہ جسٹس سچر کمیٹی‘جسٹس رنگاناتھ مشرا کمیشن اور سدھیر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمان‘دلت طبقات سے گئے گزرے حالات میں زندگی گزارہے ہیں۔

 صرف حیدرآباد کے چند خوشحال خاندانوں اورقرض حاصل کرتے ہوئے انجام دی گئی شادیوں کودیکھ کر مسلمانوں کے خوشحال ہونے کے متعلق اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔تینوں کمیشنوں نے تمام صورتحال کاجائزہ لینے کے بعدہی مسلمانوں کی تعلیمی‘معاشی پسماندگی کا اعتراف کیاتھا۔

پھر کیا وجہ ہے کہ حکمراں جماعت صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعہ مسلمانوں کا استحصال کرہی ہے۔آج ہریش راؤ نے اپنے خطاب میں اقلیتی طبقات میں یہ بات احساس دلانے کی کوشش کی کہ سابق حکومتوں کی جانب سے اقلیتوں کے لئے بجٹ میں 300 کروڑ روپے بھی مختص نہیں کئے جاتے تھے تو جناب ہریش راؤکوبھی یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ متحدہ آندھراپردیش کابجٹ کوئی دولاکھ کروڑ پر مشتمل نہیں تھا‘متحدہ ریاست کابجٹ 25,000تا 30,000کروڑ ہواکرتا تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر وقیمت میں مسلسل گراؤٹ کی وجہ سے ڈالر کے مقابلہ میں روپے سستاہوتا گیا اور ہر طرف تنخواہوں‘ٹیکس‘اخراجات اور آمدنی میں اضافہ ہوا۔ سابق کے ایک ہزارروپے کی تنخواہ جومہینہ بھر کے اخراجات کے لئے کافی تھی اور عوام کچھ رقم بچابھی لیتے تھے جبکہ آج اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘دس ہزار ماہانہ بھی کم پڑرہے ہیں۔

 آپ لوگ بجٹ میں کوئی اضافہ رقومات مختص نہیں کررہے جوسابق کے 300 کروڑ تھے وہ آج 3000کروڑ کے برابرہے۔ یہاں قابل غوربات یہ ہے کہ اگر حکومت مختص کردہ تمام رقومات جاری کرتی تو بات بنتی مگر حکومتوں کا رویہ رہاہے کہ اعلانات توبڑے بڑے کیئے جاتے ہیں مگرجب رقم کی اجرائی کی بات آتی ہے تو اسے سانپ سونگھ جاتاہے۔

 ریاست کا مالی موقف کمزور دکھایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے توپھر کیاوجہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں مکہ مسجد کے مرمتی اورتزئین نوکے کام مکمل نہیں ہوئے‘ انٹرنیشنل اسلامک سنٹر کے تعمیراتی کاموں کا آغازنہیں ہوا‘ہر ضلع میں منی حج ہاوز کے تعمیراتی کام کا غذی سطح سے آگے نہیں بڑھے کیا وجہ ہے کہ انیس الغرباء کے تعمیراتی کام غیر ضروری طورپر طول پکڑتے جارہے ہیں۔

کیاوجہ ہے کہ راتوں رات سرکاری اراضیات پر غیر مجازقابضین کو برخاست کردیا جاتاہے مگر وقف جائیدادوں پر قبضے برخاست نہیں ہوتے‘مقفل وقف ریکارڈ نہیں کھولاجاتا‘اردواکیڈیمی ناکارہ ادارے میں تبدیل ہوجاتی ہے‘حج کمیٹی کے پاس اپنے امورکی انجام دہی کے لئے رقومات نہیں ہیں‘حج کیمپ کوجاری رکھنے اسے اردو اکیڈیمی سے قرض لیناپڑتا ہے۔

آج بھی ہزاروں مسلم طلباء فیس داخل کرنے کے موقف میں نہیں ہے اس لئے کئی مسلم طلبہ کو ترک تعلیم کرناپڑرہاہے‘کیوں مسلمان چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں؟کیوں اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی جانب سے گزشتہ چار سالوں سے قرض جاری نہیں کیاگیا؟ کیوں یورکار اور آٹواسکیم پر گزشتہ پانچ سالوں سے عمل آوری نہیں کی جارہی ہے؟ کیوں دائرۃ المعارف کوجہاں انتہائی نادرنگارشات رکھی ہوئی ہیں‘ تباہی کے لئے چھوڑدیاگیا؟ کیا صرف ٹمریز کے ذریعہ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی دور ہوجائے گی؟

ان اداروں میں زیر تعلیم طلباء جب تکمیل تعلیم کے بعد روزگار حاصل کریں گے ان کا مستقبل تابناک ہوگا مگر باقی ناخواندہ‘دیہاتوں میں کھیتوں میں اجرت پرکام کرنے والوں‘شہروں میں چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے انتہائی قابل رحم حالات میں زندگی بسر کررہے مسلمانوں کا کیا ہوگا؟کیاحکومت کے پاس ان سوالات کا جواب ہے؟۔

عموماً دیکھنے میں آتاہے کہ جن افراد کے لئے سیاسی قائدین کی جانب سے پیروی کی جاتی ہے اُن کوہی سرکاری اسکیموں سے فائدہ ہوتاہے مگر اس تلخ حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ 95فیصد مسلم آبادی کی سیاسی سرپرستی نہیں ہے‘ان کی بازپرس کرنے والا کوئی نہیں ہے‘حکومت کے بلاسودی قرض‘ اوورسیز اسکالرشپس اسکیم اوردیگرسرکاری اسکیموں کے استفادہ کنندگان اس بات کی واضح مثال ہیں۔

 اوورسیز اسکالرشپس اوردیگر اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی بڑی تعداد صاحب حیثیت گھرانوں کے طلباء کی ہے‘ درمیانی افراد اورعہدیداروں کے ساتھ تعلقات اورکمیشن کی ادائیگی کے ذریعہ بہت سے طلباء نے کئی اسکیموں سے فائدہ اٹھایا اور اہل طلباء محروم رہے ہیں۔

 بیرون ممالک جاکر طلباء سلسلہ تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں یا دوسرے مشاغل میں مصروف ہیں‘ ان پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔حکومت کواس مسئلہ پر غور کرنا چاہئے۔

دوسری اہم یہ بات کہ حکومت نے اقلیتو ں کے لئے بجٹ میں 2200 کروڑ روپے مختص کئے ہیں اس میں شادی مبارک اورٹمریز کے اخراجات کو بھی شامل رکھا گیا جبکہ بجٹ میں کلیان لکشمی اور شادی مبارک کیلئے علحدہ طورپربجٹ مختص کیاگیا۔

 اسی طرح ریسیڈنشیل اسکولس کیلئے محکمہ تعلیمات میں بجٹ دکھایاگیا پھر کیاوجہ ہے کہ ٹمریز اورشادی مبارک کے اخرجات اقلیتی بجٹ سے کئے جاتے ہیں۔یہ اقلیتی طبقات کیساتھ سراسر دھوکہ نہیں ہے؟۔ حکومت کو ان تمام باتوں کا جواب دیناہوگا۔چونکہ یہ انتخابات کا سال ہے اور بجٹ خرچ کرنے صرف 9ماہ کا عرصہ باقی ہے ایسانہیں لگتاکہ نصف بجٹ بھی خرچ کیاجائے گا۔

وہ بھی ایک ایسے وقت جب مرکز‘ریاست کیساتھ مسلسل عدم تعاون پر مبنی رویہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایسا محسوس  ہوتا ہے کہ بی آرایس حکومت سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے دانستہ طورپربڑا بجٹ تیار کیاہے اور اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ مرکز کے عدم تعاون بتاتے ہوئے عوام کی ہمدردی حاصل کرے۔ ایسے میں خاص کرمسلمانوں کو باشعور ہونے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔