آندھراپردیش

کوٹیا علاقہ کے لوگ آیا اڈیشہ یا اے پی میں ووٹ دیں گے؟

آندھرا پردیش اور اڈیشہ کی سرحد کے ساتھ مشرقی گھاٹ کی خوبصورت پہاڑیوں میں بسا کوٹیا کے مواضعات پر کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ ایک بار پھر ملک میں جاری لوک سبھا انتخابات کے دوران منظر عام پر آیا ہے۔

وشاکھا پٹنم: آندھرا پردیش اور اڈیشہ کی سرحد کے ساتھ مشرقی گھاٹ کی خوبصورت پہاڑیوں میں بسا کوٹیا کے مواضعات پر کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ ایک بار پھر ملک میں جاری لوک سبھا انتخابات کے دوران منظر عام پر آیا ہے۔

متعلقہ خبریں
اتماکور میں 62 کلو چرس
سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر مسافرین کا احتجاج
ٹرین کی زد میں آکر جنگلی ہاتھی کی موت

اس علاقہ پر دونوں ریاستیں آندھرا پردیش اور اڈیشہ اپنا دعویٰ کررہی ہیں مگر فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے اس گاؤں کے عوام دونوں ریاستوں میں حق رائے دہی سے استفادہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کو دونوں ریاستوں میں ووٹ دینے کا خصوصی استحقاق حاصل ہے۔

جغرافیائی طور پر کوٹیا گاؤں، اے پی کے حلقہ لوک سبھا آرا کو اور اڈیشہ کے حلقہ لوک سبھا کو راپٹ کے درمیان واقع ہے۔ یہ گاؤں، دونوں ریاستوں کے درمیان مقابلہ کا اہم مرکز بن چکا ہے۔

آندھرا پردیش اور اڈیشہ کی حکومتیں، کوٹیا کے 21مواضعات تک فلاحی اسکیمات وسعت دینے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں اور یہ حکومتیں، ان مواضعات کے عوام کو خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر13مئی کو منعقد شدنی انتخابات، ان گاؤں کے عوام کیلئے ایک چالینج بن گیا۔

کیونکہ دونوں ریاستوں اے پی اور اڈیشہ میں 13 مئی کو رائے دہی ہوگی، اس لئے کوٹیا مواضعات کے عوام اس مخمصہ کا شکار ہیں کہ کس ریاست میں ہمیں حق رائے دہی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ دونوں ریاستوں میں 13 مئی کو اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات بیک وقت منعقد ہورہے ہیں۔

اس بحران کو حل کرنے کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کوٹیا مواضعات میں رائے دہی کے پرامن انصرام کو یقینی بنانے کیلئے دونوں ریاستوں کے عہدیداروں نے بات چیت شروع کردی۔ اے پی کی جانب سے ضلع پاروتی پورم مانیا اور اڈیشہ کے ضلع کوراپٹ کے عہدیداروں نے پرامن انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے مقصد کے تحت تبادلہ خیال شروع کردیا ہے۔

پاروتی پورم کے آئی ٹی ڈی اے کے پروجیکٹ آفیسر سی وشنو چرن جو حلقہ لوک سبھا آرا کو کے حلقہ اسمبلی سلور کے ریٹرننگ آفیسر بھی ہیں، کے مطابق یہاں 9گرام پنچایتوں کے تحت 21 قریہ جات میں 2700 رائے دہندے ہیں۔2019 کے الیکشن میں حکام نے کوٹیا علاقہ کے باہر مراکز رائے دہی قائم کئے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ کوٹیا علاقہ میں سرکاری پختہ عمارت نہیں تھی۔ بنیادی طورپر یہاں کے عوام دونوں ریاستوں کے ووٹر آئی ڈی کا رڈز رکھتے ہیں۔ حکومت اڈیشہ نے ان میں اپیک کارڈز جاری کئے جبکہ حکومت اے پی نے بھی ووٹر آئی ڈی کا رڈز تقسیم کئے۔

سابق میں دونوں ریاستوں میں رائے دہی مختلف تواریخ میں ہوتی تھی اس لئے ان لوگوں کو ووٹ دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اب دونوں ریاستوں میں 13 مئی ایک ہی تاریخ کو ہی الیکشن ہے۔ وشنو چرن نے کہا کہ یہ لوگ حق رائے دہی سے استفادہ کرنے کیلئے کوراپٹ کی سمت جاسکتے ہیں اور ہمارے (اے پی) کی طرف بھی یہ آسکتے ہیں۔

بیشتر مواضعات کے افراد نے ادارہ جات مقامی کے انتخابات میں دونوں ریاستوں میں ووٹ دیا ہے۔ کسی بھی گاؤں کے دورہ کے دوران اڑیہ زبان کے ساتھ تلگو میں بھی سائن بورڈز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ڈول بھدرا گاؤں کی رہنے والی توڈنگی لکشمی نے بتایا کہ حکومت اڈیشہ نے انہیں ایک مکان الاٹ کیا ہے جبکہ حکومت اے پی نے میرے مکان میں مفت بجلی فراہم کی ہے۔

ڈول بھدرا میں دو اسکولس ہیں ان میں ایک اڑیہ دوسرا تلگو میڈیم شامل ہے اوریہاں دونوں ریاستوں نے دو واٹر ٹینکس تعمیر کرائے ہیں۔ یہاں کے عوام، دونوں حکومتوں کی جانب سے سربراہ کئے جانے والے مفت چاول حاصل کرتے ہیں اور وظیفہ پیرانہ سالی بھی حاصل کرتے ہیں۔

حکومت اے پی ہر ماہ فی کس3000روپے اور حکومت اڈیشہ فی کس1000 روپے وظائف دیتی ہے۔ ایک گاؤں کی نرلہ ولا سا نے یہ بات کہی۔ ساریکا گاؤں کی سرپنچ جی ستیہ وتی نے الزام عائد کیا کہ2022 میں اے پی میں منعقدہ ادارہ جات مقامی کے انتخابات میں یہاں کے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے اڈیشہ کی پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔