بھارت

عالمی یوم اردو: اردو کی بقا ء و ترویج کے لئے اردو کے مسائل کے فوری حل کی ضرورت

واضح رہے کہ اُردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہی زبان نہیں بلکہ بھارت کی زبان بن گئی۔

بھوپال: ہندوستانیوں اور حکومت دونوں کو چاہئے کہ دنیا بھرمیں جہاں جہاں ہندوستانی سفارت خاتے اور دفاتر ہیں، وہاں ہندوستانی زبان کو عام کرنے کی کوشش کی جائے- اس کے لئے اُردو داں اور محبانِ اُردو کو بھی سرگرم ہونے، اُردو کی بقاء و فروغ اور اُردو کے مسئلہ ومسائل کی نشاندہی کرکے اس کا حل تلاش کرنے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں اُردو شعبے قائم کرنے، نصابی کتابیں اُردو میں مہیا کرانے اور طلباء کی سیٹیں بڑھانے اور اُردو بورڈ تشکیل دینے جیسے مسائل پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار عالمی یوم اردو 9 نومبر کے موقع پر بے نظیر انصار ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔

بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں عالمی یومِ اُردوجوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔عالمی یومِ اُردو منانے کا آغاز 1997میں ہوا تھا، لیکن جب اس چراغ کی روشنی دوسرے ملکوں میں پہنچی تو وہاں موجود محبان اُردو نے بھی اس چراغ سے اپنے چراغ جلائے اور انھوں نے بھی اسی تاریخ کو یوم اُردو منانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں بھی اُردو والے موجود ہیں، 9؍نومبر کو پورے جوش وجذبے کے ساتھ اُردو ڈے مناتے ہیں۔

واضح رہے کہ اُردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہی زبان نہیں بلکہ بھارت کی زبان بن گئی۔ اُردو کی ترقی میں بھارت کے تمام مذاہب ہندو-مسلم-سکھ-عیسائی ادیبوں نے بہت کام کیا۔

اس کی آبیاری اور ترویج و ترقی میں شمالی ہند کے تمام علاقوں نے حصہ لیا۔ یہیں کے لوگ اسے دکن میں لے گئے اور یہ وہاں دکنی اور گجراتی زبان کہلائی۔ اس کے فروغ میں حیدرآباد دکن اور پنجاب کی خدمات اتنی ہی اہم ہیں جتنی دہلی اور یوپی کی۔ خصوصاً پنجاب نے اس کے علمی و ادبی خزانوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔

یہ زبان کنیا کماری سے لے کر کشمیر اور مشرقی صوبوں (آسام، میزورم، تریپورہ) سے لے کر مغربی صوبوں (گجرات) تک بھارت کی تمام بھاشاؤں سے مل جُل کر اپنے اندر سبھی کو سموتی ہوئی، جذب کرتی ہوئی بولی جاتی ہے۔

اردو ہندوستان کوجوڑنے، ہم آہنگی اور ہندوستان کی ترقی میں بھرپور تعاون اور ساتھ دے رہی ہے۔ برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اُردو ہے، اسی لئے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اُردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور یوں اُردو کی بالواسطہ طور پر ترویج بھی ہونے لگی۔

شعر وشاعری اورغزلوں کے ذریعہ اردو زبان ہم آہنگی، بھائی چارہ، محبت کا پیغام ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پہنچارہی ہے۔ اُردو زبان وادب کے ذریعے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان ایک ہو، گنگاجمنی تہذیب پروان چڑھے، لوگ مل جل کرملک کو اُونچائیوں پر لے جائیں۔

واضح رہے کہ اُردو کو مٹانے کی لاکھ کوششوں اورمتعصبانہ رویہ کے باوجود اُردو کا بین الا قوامی زبان بن جانا اُردو کی اندرونی طاقت، لہجہ ولفظ کی خوبصورتی، مٹھاس وتاثیر کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ یورپ، امریکہ اورعرب ممالک سمیت پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والی اور لوگوں کی پسندیدہ زبان ہے۔

پروفیسر تاراچند رستوگی نے اُردو کے اس بین الا قوامی کردار اور سیکولر مزاج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے’’مسلم ذہن، ہندوانہ رنگ وروپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی وترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھا اور استعمال کرنا شروع کیا، ہندوؤں نے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی، اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اُردو زبان کی شکل میں شامل ہوا‘‘۔

اُردوکی صدیوں پر مشتمل روایت میل جول، بھائی چارہ، اتحاد اور سیکولر مزاج رکھتی ہے۔ تعصب وتنگ نظری سے خود کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس زبان کا پیغام محبت، آشتی اور انسانیت کا رہا ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جو سنت کبیر، گرونانک، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اور دیگر صوفیاء اور سنتوں نے دیا ہے۔