انسداد تبدیلی مذہب کے آرڈننس کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج

کارگزار چیف جسٹس آلوک ارادھے اور جسٹس جے ایم قاضی کی بنچ نے محکمہ داخلہ کے سکریٹری اور محکمہ قانون کے پرنسپل سکریٹری کو نوٹس جاری کرکے انہیں اندرون چار ہفتے اعتراضات داخل کرنے کی ہدایت دی۔

بنگلورو: کرناٹک میں انسداد تبدیلی مذہب بل پر دوبارہ بحث شروع ہوچکی ہے، کیوں کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اسے چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کو آرڈننس کے ذریعہ اس قانون کے نفاذ پر نوٹس جاری کیا ہے۔

 جمعہ کو ہائی کورٹ نے حکومت کے اقدام کے چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی کے ضمن میں حکومت کو اعتراضات داخل کرنے کی ہدایت دی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ انسداد تبدیلی مذہب قانون (مذہب کی آزادی کے حق کے تحفظ کا بل2021) عدم رواداری کا مظہر ہے اور اس کی دستوری حیثیت پر سوال اٹھایا گیا۔

 نئی دہلی کی تنظیم‘ متحدہ عیسائی فورم برائے انسانی حقوق و انجیلی فیلوشپ آف انڈیا نے کہا کہ یہ بل ملک کو متحد کرنے والی جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔ کارگزار چیف جسٹس آلوک ارادھے اور جسٹس جے ایم قاضی کی بنچ نے محکمہ داخلہ کے سکریٹری اور محکمہ قانون کے پرنسپل سکریٹری کو نوٹس جاری کرکے انہیں اندرون چار ہفتے اعتراضات داخل کرنے کی ہدایت دی۔

عرضی میں کہا کہ انسداد تبدیلی بل کے تحت وضع کردہ قوانین فرد کی پسند کی آزادی، آزادی کے حق اور مذہب پر عمل کرنے کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آڈرننس کی دفعات ہندوستانی دستور کی دفعہ 21کی خاف ورزی کرتی ہیں، کیوں کہ یہ (قوانین) ریاست کو شہریو ں کے انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کا اختیار دیتے ہیں۔

 بی جے پی حکومت کی جانب سے ریاست میں آرڈننس کے ذریعہ انسداد تبدیلی مذہب قانون کو نافذ عمل کیے جانے کے بعد اپوزیشن کانگریس نے اس کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس نے کہا کہ وہ مذکورہ بالا قانون کے بیجا استعمال کی کبھی اجازت نہیں دے گی۔

 ہماری پارٹی اقلیتی برادری کے ہر فرد‘ جسے حکومت سے خطرہ لاحق ہے، کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہوگی۔ پارٹی مجوزہ بل کے خلاف عوامی تحریک شروع کرے گی۔“ کرناٹک حکومت نے مجوزہ متنازعہ انسداد تبدیلی مذہب بل 2021‘ 21/ دسمبر2021 کو قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ تاہم یہ ابھی قانون ساز کونسل میں پیش نہیں کیا گیا۔

 تمام قانونی اداروں، تعلیمی اداروں، یتیم خانوں، بیوت المعمرین، دواخانوں، مذہبی مشنریز، غیرسرکاری تنظیموں کو اس قانون کے دائرے میں لایا گیا۔ نئے قانون کے مطابق مذہب تبدیل کرنے والا شخص، اس کے والدین، بہن، بھائی یا کوئی اور فرد جس سے اس کا خون کا رشتہ ہے، ازدواجی رشتہ ہو یا متنبی ہو یا کسی بھی طریقے سے اس سے وابستہ ہو یا ساتھی ہو، ایسی تبدیلی کے خلاف شکایت درج کرواسکتا ہے۔ یہ جرم ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی ہوگا۔