ای ڈبلیو ایس کوٹہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

محمد محبوب
مر کز کی بی جے پی حکو مت نے 2019 کے عام پارلیمانی انتخابات سے عین قبل ملک کے اعلیٰ ذاتوں کے حامل معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو تعلیم اور مر کزی حکومت کی ملازمتوں کے شعبوں میں 10% تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا ا ور پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے ہوئے اسے قانونی شکل دی گئی۔ اس پرعمل آوری بھی شروع کی گئی۔ ان تحفظات کے تحت اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پر کمزور اور پسماندہ طلباء اقلیتی اداروں کے سواء، ایڈیڈ اور خانگی تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور مرکزی سرکاری نوکریوں میں بھی انہیں تحفظات حا صل ہوں گے۔ سا لانہ 8 لاکھ روپیوں سے کم آمد نی کے حا مل خاندان معاشی طور پر پسماندہ کہلائیں گے اور وہ ان تحفظات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ سپر یم کورٹ کی رولنگ کے مطابق ملک میں مختلف پسماندہ طبقات کوجو تحفظات فراہم کیے جاتے ہیں، اس کی مجموعی حد 50% سے متجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر متجاوز ہو تو یہ دستور کی خلاف ورزی متصور کیا جائے گا۔ لیکن مرکز کی بی جے پی حکو مت نے اعلیٰ ذاتوں کے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے دس فیصد تحفظات کا اعلان کیا، جس سے تحفظات کی مجموعی حد 50% سے متجاوز ہو چکی تھی۔ اس کے لیے 103 ویں دستوری تر میم کر تے ہوے تحفظات کی فراہمی کی راہ ہموار کی گئی۔ 103 ویں دستوری تر میم کے ذریعہ مجموعی تحفظات کی حد کو 50% سے بڑ ھا کر 60% کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی بعض ادارے اور افراد‘ اسے غیر دستوری قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع ہو ئے۔ ابتداََ یہ معاملہ مدراس ہائیکورٹ میں داخل کیا گیا۔ بعد ازاں یہ معاملہ سپر یم کورٹ سے رجوع کیا گیااور ا گسٹ 2020 میں یہ مقد مہ پانچ رکنی بنچ کے سپر د کیا گیا۔ حالانکہ اس وقت مرکزی حکومت نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ اعلیٰ ذاتوں کے حامل معاشی طور پسماندہ طبقات کو 10% تحفظات فراہم کرنے پر قبل ازیں ملک میں قومی سطح پر درج فہرست قبائل، درج فہرست طبقات اور دیگر طبقات (او بی سی)کو حاصل تحفظات متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ بدستور جاری رہیں گے۔ تاہم 103 ویں دستوری ترمیم کو چیالنج کرتے ہوئے 32 رٹ پٹیشنس سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھیں۔ ان رٹ درخواستوں پر سپر یم کورٹ میں مسلسل ایک ہفتہ تک تفصیلی سماعت کی گئی۔ تاہم 27 ستمبر کو سماعت مکمل ہوئی۔ کل 7 نومبر 2022 کو سپریم کورٹ کی پا نچ رکنی بنچ نے ان در خواستوں کی تفصیلی سماعت کے بعد 3:2 کی اکثریت سے فیصلہ صادر کیا۔پانچ رکنی بنچ کے منجملہ سہ رکنی بنچ نے اعلیٰ طبقات کے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو 10%تحفظات کی فرا ہمی کو حق بجانب قرار دیا اور اس ضمن میں کی گئی 103 ویں دستوری ترمیم کو آئینی قراردیا۔ عدا لت عظمی کے اس فیصلے نے جہاں اعلیٰ ذاتوں کے حا مل معاشی طور پر پسماندہ افراد کو خوشی کا موقع فرا ہم کیا ہے، کیوں کہ سپر یم کورٹ کے اس فیصلے سے ہندوستان کے تقریباً8 کروڑ خاندانوں کو فا ئدہ ہو گا، وہیں او بی سی زمر ے کے تحت قومی سطح پر تحفظات حا صل کر ر ہے اُمیدواروں کو ما یوس کر دیا ہے اور وہ سرا پا احتجاج بن گئے ہیں۔ مر کزی حکومت نے جس مقصد کے تحت سال 2019میں اعلیٰ ذاتوں کے معاشی طور پر پسماندہ طبقہ کو 10% تحفظات فراہم کیے تھے،اس کے مکمل سیا سی فوائد حا صل کر چکی ہے۔ دستور ساز کمیٹی کے چیر مین بی آر امبیڈ کر نے دستور سازی کے وقت اس وقت کے سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ افراد کے لیے عارضی طور پر یعنی دس سالوں تک تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات فرا ہم کیے تھے، لیکن ملک کی آزادی کے 75 سالوں بعد بھی ان تحفظات پر عمل آوری کی جارہی ہے۔ ہر دس سالوں میں ایک مر تبہ ان میں تو سیع کی جا تی ہے۔
تحفظات کا تاریخی پس منظر:۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کی تعمیر جد ید ایک اہم کام تھا۔ ایک طر ف ہندوستانیوں کو جینے کے لیے نئے سر ے سے اسباب فر اہم کر نا تھا تو دوسری طرف ملک کی آزادی کے بعد ایک ایسے دستور کی تد وین تھی جو کثر ت میں وحدت کے حامل اور ہزاروں ذاتوں سینکڑوں مذاہب اور بے شمار زبانوں کے بو لنے والوں کو آپس میں شیر و شکر کی طرح زند گی گزارنے کے لیے ایک لچک دار اور تحر یری دستور کی تد وین بھی اہم تھی۔ چنانچہ ملک کی آزادی کے بعد دستور کی تد وین کے کام کا آغا زہوا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر اس مسودہ ساز کمیٹی کے چیر مین قرار پا ئے۔ دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن کی طو یل مدت میں دستور مدون کیا گیا اور ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر نے دستو کی تد وین میں اس نکتہ کو شامل کیا کہ اس وقت ملک میں در ج فہر ست طبقات اور قبائل کے لیے تعلیم اور ملازمتوں میں 15% تحفظات فرا ہم کیے جائیں گے۔اس وقت دیگر طبقات نے اس تحفظات کے مسئلہ پر کو ئی لب کشائی نہیں کی لیکن جب ان تحفظات کے سبب در ج فہر ست قبائل اور در ج فہر ست ذات کے طلباء کی تعلیم اور ملازمتوں کی شر ح میں اضا فہ ہوا تو دیگر طبقات نے بھی انہیں تحفظات کی فرا ہمی کے مطالبات شروع کیے۔ بعد ازاں ملک کی مختلف ذاتوں کے حا مل پسماندہ طبقات نے تحفظات کے مطالبات شروع کئے۔ وزیر اعظم وی پی سنگھ نے دیگر طبقات کے لیے مجمو عی طور پر 27% تحفظات منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر فرا ہم کیے۔ اس کے کچھ عر صہ بعد خواتین کو آبادی کے تناسب سے تحفظات کی فرا ہمی کا مطالبہ زور پکڑا اور راجیو گا ندھی کے دور میں خواتین کو پنچایت اور بلدیات میں 33% تحفظات فراہم کئے گے۔ اسی وقت سے اعلیٰ ذات کے حا مل معاشی طور پر پسماندہ طبقات نے ان کی معا شی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کی فرا ہمی کے مطالبات شروع کیے۔ ملک میں اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے طبقات میں بر ہمن، ریڈی اور مسلمانوں میں سید،خان اور پٹھان شامل ہیں۔ تا ہم وزیر اعظم نر یندر مو دی نے سال 2019 ء میں اعلیٰ ذات سے تعلق ر کھنے والے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے تعلیم و ملازمت میں 10% تحفظات فر ہم کرتے ہو ئے احکامات جاری کیے۔ اس کے خلاف مختلف افراد اور اداروں نے خا ص کر جنیت ابھیاں اور یو تھ فار ایکوالٹی جیسے مو قر اداروں نے عدالت سے رجوع ہو کر یہ استدلال پیش کیا کہ مر کز ی بی جے پی حکومت نے 10% تحفظات کی فرا ہمی کے لیے دستور کی 103 ویں تر میم کی جو غیر آئینی ہے۔
تحفظات کی فراہمی میں ججس میں اختلاف:۔ تاہم پیر کے دن چیف جسٹس یو یو للت کی قیادت والی 5 ر کنی بنچ نے 3:2 کی اکثریت سے فیصلہ صادر کیا اور اس طر ح اعلیٰ ذاتوں کے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو دستیاب تحفظات پر سے اب خطر ے کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ فیصلہ میں پانچ ججس میں سے دوججس نے تحفظات کی فراہمی کو نا مناسب قرار دیا تاہم تین ججس کے خیالات اس طر ح تھے۔جسٹس دنیش مہیشوری نے اس سماعت کے دوران کہا کہ سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو زند گی کے دھا رے میں شامل کر نے کے لیے تحفظات ایک پل کی طرح کام کر تے ہیں اور اگر تحفظات فرام کیے جائیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو گی اورنہ ہی کسی دوسرے طبقات کی حق تلفی ہو گی۔ اور تحفظات 15(4)کے تحت ہندوستانی شہر یوں کو فر اہم کر دہ حق مساوات کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوں گے۔ جبکہ جسٹس بلا تر ویدی نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد اب تحفظات کی شر ح اور تحفظات سے استفادہ کر ر ہے طبقات پر نظر ثا نی کر نا ضروری ہے۔ جسٹس رویندر بھٹ نے تحفظات کو نا گزیر قرار دیا۔ انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کیے در ج فہر ست طبقات میں جملہ 38% اور درج فہرست قبائل کی آبادی میں جملہ 48 فیصد طبقہ اب بھی سطح غر بت سے نچلی زند گی گزار رہا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت نے تحفظات کی فر ہمی کی مخالفت کی۔ انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ صر ف معاشی پسماند گی تحفظات کی فرا ہمی کا سبب نہیں بن سکتی۔
تحفظات نفع و ضرر کے میزان میں:۔تحفظات سے جہاں پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کی راہ ہموار ہو تی ہے، وہیں قابل اور صلا حیت کے حا مل طلباء کی حق تلفی بھی ہو تی ہے۔ ایک طر ح سے تحفظات مساوات اور عد م مساوات کا مظہر ہوتے ہیں۔ جن طبقات کو تحفظات حا صل ہیں وہ طبقات اب پسماندہ سے تر قی ماندہ ہو ر ہے ہیں اور تحفظات کی حد میں مسلسل اضا فے سے عام زمر ے کے تحت مقابلہ کر ر ہے اُ میدواروں سے نا انصا فی ہو ر ہی ہے۔ سر کاری نو کر یوں کے لیے جو مسابقتی امتحانات مختص کیے جا تے ہیں، ان میں عام زمر ے کے اُمیدواروں کے لیے فر سٹ کی پوزیشن پر رہنے کے با وجود بھی اس بات کی کو ئی ضمانت نہیں رہتی کہ اس کا تقرر ہو گا بھی یا نہیں۔ سر کاری ملازمتوں کا جب اعلا میہ جا ری ہو تا ہے تو اس میں اس بات کی صرا حت کی جا تی ہے کہ تقرر طلب جا ئیدادیں کتنی ہیں اور وہ کو ن کون سے طبقات کے لیے مختص ہیں۔ کئی جا ئیدادیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں مختص کر دہ زمر ے کے اُمیدواروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ پُر نہیں کی جاسکتیں۔ مثال کے طور پر تلنگانہ میں مسلمانوں کو 4% تحفظات حا صل ہیں، لیکن پو لیس کے تقررات میں مسلم تحفظات کے تحت ویمن کے لیے مختص جا ئیدادیں عمو ماََ مخلوعہ رہ رہی ہیں۔ اس لیے کہ مسلم بچیوں کا رجحان پو لیس کی ملازمتوں کی طر ف نہیں ہے۔ اسی طر ح اگر تعلیم کے محکمہ کی بات کی جا ئے تو اُردو میڈیم کی ٹیچر س کی اسا میاں بڑی تعداد میں در ج فہر ست طبقات اور درج فہر ست قبائل کے لیے مختص کی جا رہی ہیں۔ جبکہ مذکورہ طبقات کے طلباء اردو میڈیم سے تعلیم حاصل نہیں کر تے جس کے سبب ان کے لیے مختص جا ئیدادیں بیا ک لاگ ہو جا تی ہیں۔ مر کزی حکومت میں فوج کی ملازمتوں میں بھی مختص کر دہ طبقات کے اُمیدواروں کی عدم دستیابی کے سبب کئی جا ئیدادیں مخلوعہ رہ جا تی ہیں۔ اس کی بجا ئے اگر حکومت میرٹ کی اساس پر تقررات کا آغاز کر ے تو اس کی وجہ سے دو فا ئدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ حق بہ حق دار رسید کے مطابق مستحق کو حق ملے گا اور دوسرے کو ئی جا ئیداد کسی مخصو ص زمر ے کے اُمیدوار کی عدم دستیابی کے سبب مخلو عہ نہیں رہے گی۔ دوسرے یہ کہ جن خاندانوں کے طلباء کی مناسب رہنمائی ہو تی ہے، وہی طلباء تعلیم اور ملازمت میں تحفظات کے ثمرات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ مسابقتی امتحانات میں عا م زُمر ے کے اُمیدوار امتیازی نشانات حا صل کر تے ہو ئے ملازمت سے محروم ہو ر ہے ہیں۔ جبکہ تحفظات کے حا مل طلباء معمولی نشانات سے کا میابی حا صل کر تے ہوئے ملازمت اور تر قی کر تے ہو ئے اعلیٰ عہدوں پر برا جمان ہو رہے ہیں۔ سپر یم کورٹ کی رولنگ کے مطابق مجموعی تحفظات کی حد 50% سے متجاوز نہیں ہو نا چاہیے، لیکن ہندوستان کی ہر ریاست میں تحفظات کی حد مختلف ہے۔ اور ہر ریاست میں وہاں کے طبقات کو تحفظات کی شر ح مختلف ہے۔ اگر میں تلنگانہ اور آند ھرا پردیش کی مثال دوں تو یہاں مسلمانوں کو 4% تحفظات تعلیم اور ملازمتوں کے میدان میں حاصل ہیں۔ جبکہ دوسری ریاستوں جیسے تا مل ناڈو وغیرہ کے مسلمانوں کو حاصل تحفظات کا فیصد 12% تک ہے۔ ریاستی سطح پر گجرات اور راجستھان میں گجر طبقہ اور آند ھرا پر دیش میں کا پو طبقہ کو تحفظات کی فرا ہمی کے مطالبات زور پکڑ ر ہے ہیں۔ جبکہ مد ھیہ پر دیش، بہار اور اُتر پر دیش ریاستوں میں معا شی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذات کے طبقات کو تحفظات کی فرا ہمی کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔بہر حال تحفظات کی فراہمی عارضی ہونی چاہیے، مستقل نہیں۔ اس سے اہل طلبا ء کو ان کا حق نہیں ملتا۔ سپر یم کورٹ نے جو فیصلہ صادر کیا ہے۔ یہ دیگر فیصلوں کی طر ح حکومت کی ایماء پر کیا گیا فیصلہ نظر آتا ہے۔
٭٭٭