مضامین

جو چپ رہے گی زبان ِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا….!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

اس سال منائی جانے والی یوم آزادی کی تقاریب اس لحاظ سے یاد گا ررہیں کہ یوم آزادی کے اس قومی تہوار کو پوری قوم نے ایک جشن کے طور پر منایا۔ ایسا جوش و خروش شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا جبکہ سماج کے تما م طبقوں نے ان تقاریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وزیراعظم نریندرمودی کی ” ترنگا مہم“ کا اثر اتنا تو ہوا کہ جولوگ اپنے ہیڈ کوارٹر پر برسوں سے قومی پرچم نہیں لہراتے رہے وہ قوم کو درس دینے نکلے کہ قومی پرچم کو لہرانا قوم پرستی کی علامت ہے۔ اب انہیں کم ازکم 75سال بعد خیال آیا کہ یوم آزادی کی اہمیت کیاہے۔ آزادی کے اس امرت مہا اتسو کے موقع پر دہلی کے لال قلعہ کی فصیل سے مسلسل نویں مر تبہ وزیر اعظم نریندر مودی کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اہل ملک کو جو یقین دہانیاں کرائیں ان میں یہ بھی شامل تھا کہ ملک کی خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور خواتین کے احترام کو اہمیت دی جائے گی۔ یوم آزادی کے تاریخی دن جہاں وزیراعظم پوری دنیا کے سامنے یہ وعدہ کر رہے تھے کہ اس ملک میں خواتین کی عزت و عفت کو اولین ترجیح دی جائے، لیکن اسی دن ان کی آبائی ریاست گجرات میں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت نے عورتوں کے ساتھ نا انصافی کا جو بدترین مظاہرہ کیا ہے، اس کی وجہ سے آزادی کے سارے جشن پر پانی پھر گیا ہے۔ وہاں کی بی جے پی حکومت نے 2002کے گجرات فسادات کے ان ملزمین کو جنہیں عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی، انہیں عام معافی دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ گودھرا ٹرین سانحہ کے بعد گجرات میں جو ہولناک فسادات ہوئے، اس کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ یہ دراصل مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ ظلم اور بربریت کے ایسے دردناک واقعات ان فسادات کے دوران سامنے آئے جنہیں سن کر یا پڑھ کر جسم کانپ جاتا ہے۔ ان ہی دردناک واقعات میں ایک واقعہ بلقیس بانو کا ہے۔ پانچ ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس بانو کی 11 درندہ صفت شرپسند عناصر اجتماعی عصمت ریزی کرتے ہیں۔ اس خاتون کے سامنے اس کی 4سالہ لڑکی کو پتھر پر پٹخکر ماردیا جا تاہے۔ بلقیس بانو کے ساتھ اس گھر کی 4 خواتین کی بھی عصمت ریزی کرکے انہیں بھی قتل کردیا جاتا ہے۔ انسانیت کو شرمسار کر دینے والے اس گھناو¿نے جرم کی تحقیقات ہو تی ہیں اور بلقیس بانو اور ان کے شوہر کی انتھک قانونی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ بلقیس بانو کیس کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیتی ہے اور 21 جنوری 2008کو ممبئی کی سی بی آئی عدالت تمام شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے بلقیس بانو کی عصمت ریزی اور ان کے خاندان کے 7افراد کو قتل کرنے کے جرم میں 11افراد کو عمر قید کی سزا سناتی ہے۔ مجرمین ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع ہوتے ہیں لیکن ان کو وہاں کوئی راحت نہیں ملتی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد انسانیت سوز حرکت کرنے والے مجرمین جیل میں بند ہوتے ہیں،لیکن افسوس کہ گجرات کی بی جے پی حکومت کو ان مجرمین کا جیل میں رہنا اچھا نہیں لگا اور یوم آزادی کے موقع پر عام معافی کا بہانہ تراش کر ان کو رہا کر دیا گیا۔ گجرات حکومت کا یہ اقدام انصاف کا قتل ہے۔ اس سے مظلوموں کے زخم تازہ ہو جائیں گے۔ بلقیس بانو کے شوہر نے حکومت کے اس فیصلہ پر غم و غصہ کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ مجرموں کی رہائی سے انہیں صدمہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے 20سال بعد بھی وہ خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے خاندان کو رہنے کے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں ہے۔ گجرات حکومت نے اپنے اس غیر آئینی اقدام کے ذریعہ بلقیس بانو کے خاندان کو مزید مسائل اور پریشانیوں میں ڈال دیا ہے۔
ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی بلقیس بانو کیس کے خاطیوں کی رہائی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف وزیر اعظم یوم آزادی کی تقریر میں ناری شکتی کی زبردست تعریف کر تے ہیں اور پھر ان کی تقریر کے چند گھنٹوں بعد ہی ان مجرمین کو رہا کردیا جا تا ہے جو عورتوں کی نہ صرف عصمت ریزی کر تے ہیں بلکہ انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔ عدالت انہیں خاطی قرار دیتی ہے، لیکن بی جے پی حکومت اپنی من مانی معافی کی پالیسی اپناکر انہیں رہا کر دیتی ہے۔ اس سے بی جے پی دور کے نئے ہندوستان کا نقشہ ابھر رہا ہے۔ قابل افسوس اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ ایسے سماج دشمن عناصر کا جیل کے باہر مٹھائی کھلاتے ہوئے اور گلپوشی کرتے ہوئے استقبال کیا جا تا ہے۔ گجرات حکومت کی مجرموں سے قربت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے پاس انسانیت کی کوئی قدریں نہیں ہیں، ان کی عورتوں سے ہمدردی کی باتیں محض دکھاوا ہے۔ ان خاطیوں کی رہائی کی یہ تاویل دی جا رہی کہ یہ تمام افراد جیل میں 14برس مکمل کر چکے ہیں اور سزا کے دوران ان کا طرز عمل ٹھیک رہا ۔ اس لیے ان کی بقیہ سزا معاف کردی گئی۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی مجرموں کو رہا کرنے کی روایت ہمارے ملک میں چلی آ رہی ہے۔ لیکن ایسے موقعوں پر جن قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے، ان میں عصمت ریزی کے ملزمین شامل نہیں ہیں۔ ان ضمن میں مرکزی حکومت کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ یہ خود ایک بہت بڑا سوال ہے کہ قیدیوں کی رہائی کی واضح پالیسی ہونے کے باوجود ایک ریاستی حکومت کیسے سنگین نوعیت کے کیس میں ملوث مجرمین کو عام معافی کا پروانہ دے سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ساری کارستانی کے پیچھے دونوں حکومتوں کا رول رہا ہے۔ مرکز کی اجازت کے بغیر گجرات کی بی جے پی حکومت اتنا بڑا اقدام نہیں کر سکتی۔ بادی النظر میں اس رہائی کا فائدہ بی جے پی گجرات میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں اٹھانا چاہتی ہے۔ ہندو اکثریت کو مطمئن کرنے کے لیے مظلوموں کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ خاص طور پر یوم آزادی کے موقع پر ایک بدنام زمانہ کیس میں ملوث خاطیوں کو عام معافی دیتے ہوئے آزاد کر دینا اس بات کی غمازی ہے کہ بی جے پی اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والے شیطان صفت انسانوں کے لیے ہمیشہ اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ درندے جنہوں نے پانچ ماہ کی حاملہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی معصوم بچی کو قتل کردیا اور پھر اسی خاندان کی دیگر عورتوں کی عصمت ریزی کرکے ان کا قتل کردیا، ان سے کوئی بھی با ضمیر انسان ہمددردی کیسے کر سکتا ہے؟ گجرات کو پہلے ہی ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ جب سے وہاں بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار ہے ، وہاں قانون اور دستور کی محض دہائی دی جاتی ہے، لیکن سارے کام ہندتوا کو مضبوط کرنے کے کیے جاتے ہیں۔ یہی وہ گجرات ہے جہاں 2002کے فسادات کے دوران کانگریس کے سابق ایم پی، احسان جعفری کو دیگر افراد کے ساتھ زندہ جلادیا گیا تھا۔ احسان جعفری مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ ان کی بیوہ نے انصاف کے لیے ایک لمبی جنگ لڑی لیکن انہیں بھی آخر میں مایوس ہونا پڑا۔ یہ وہ بدلتے ہوئے حالات ہیں جس سے اس وقت ہندوستان گزر رہا ہے۔ ایک طرف جشن آزادی میںقومی یکجہتی کے جھوٹے ترانے گائے جا تے ہیں اور سب کا ساتھ اور سب کا وشواس کا نعرہ دیا جا تا ہے اور عین اسی خوشی کے وقت ایسے زخم دیے جا تے ہیں جس کی کربناکی کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو آزادی کے دن رہا کرکے یہ باور کرادیا دیا گیا کہ مسلمانوں کی عورتوں کی عصمت ریزی کرنے والوں اور ان کا قتل کرنے والوں کی حکومت کے پاس کتنی قدر و منزلت ہے۔
ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی گجرات حکومت کے اس فیصلہ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یوم آزادی کی تقریر میں وزیر اعظم نریندرمودی ناری شکتی کی پر زور حمایت کرتے ہیں اور خواتین کو با اختیاربنانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور تقریر کے چند گھنٹے بعد ہی بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی کیس کے 11مجرموں کو ریاستی حکوت رہا کر دیتی ہے۔ اس سے بی جے پی دور میں نئے ہندوستان کا حقیقی نقشہ بے نقاب ہوا ہے۔ ان قائدین نے کہا کہ بھیانک جرم کرنے والوں کو نہ صرف عام معافی دی گئی بلکہ جیل کے باہر انہیں مٹھائی کھلاتے ہوئے اور ان کی گلپوشی کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا گیا۔ اس سے بی جے پی کی ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔ گجرات حکومت نے تمام 11شیطانوں کو آزاد کرکے ملک کے عدالتی نظام پر بھی سوالات کھڑے کردیے۔ اگر انتہائی گھناو¿نے جرائم کرنے والے بھی چند دن کی قید کے بعد رہا کردیے جائیں تو ملک میں جرائم کا جو سلسلہ شروع ہوجائے گا، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ان 11افراد نے سنگین جرائم کیے تھے اور عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا ان کے جرائم کو دیکھتے ہوئے دی تھی۔ ان گیارہ مجرموں میں سے صرف ایک نے اپنی قبل از وقت رہائی کی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس درخواست پر غور کرے ، لیکن سپریم کورٹ نے یہ احکام جا ری نہیں کیے تھے کہ اُس کو رہا کر دیا جائے۔ گجرات حکومت اس ایک مجرم کی درخواست پر غور کرنے کی بجائے سارے 11خاطیوں کو رہا کردیتی ہے تو اس سے شکوک و شبہات کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ بلقیس بانو کے شوہریعقوب رسول کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کسی مجرم نے سپریم کورٹ میں رہائی کے لیے درخواست دی تھی اور سپریم کورٹ نے اس ضمن میں گجرات حکوت کو کوئی ہدایت دی ہے۔ اس ضمن میں ان کو کوئی نوٹس نہیں دی گئی۔ جب کہ قانون کا اصول ہے کہ فریق ثانی کو بھی پورے مقدمہ سے باخبر رکھا جائے۔ یعقوب رسول کا ادعا ہے کہ مجرموں کی رہائی کی خبر انہیں میڈیا سے ملی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے متاثرہ افراد کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ان کی مرضی کے بغیر ان پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو رہا کر دیا گیا۔ یہ جمہوریت کا کھلا مذاق ہے ۔ گجرات حکومت اپنے اس اقدام کو حق بہ جانب قرار دینے کے کئی حیلے تلاش کرے گی لیکن اس نے جس دوہرے معیارات کا ثبوت دیا اس سے اس کی تنگ نظری اور تعصب کا کھلا اظہار ہوتا ہے۔ 2002میں گجرات میں ہوئے خون آشام فسادات پر اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ریاست کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور اب وہ کس منہ سے بیرون ملک جائیں گے۔ گجرات کی شقاوت اور بربریت کے قصے تو عام ہوئے، لیکن حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ وہی لوگ آج مرکز میں اقتدار پر قابض ہیں جنہوں نے دھرم کے بہانے گاندھی کی سرزمین پر ایسی شیطانی کارستانیاں کیں کہ شیطان بھی شاید اس سے شرماجائے۔ عورتوں کی عصمتیں دن کے اجالے میں لوٹی گئیں ۔ غریب مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو خاکستر کر دیا گیا۔ انتہا یہ کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر انہیں آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ ملک کی آزادی کے بعد بہت سارے فسادات ہوئے لیکن گجرات میں جوظلم و چیرہ دستی دیکھی گئی، اس سے پہلے ایسے دردناک اور ہولناک مناظر دیکھنے میں نہیں آ ئے۔ انصاف کا تقاضاہے کہ بلقیس بانو کیس کے تما م 11مجرموں کی رہائی کو منسوخ کرتے ہوئے پھر سے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے ۔ سپریم کورٹ کو بھی اس معاملے میں نوٹ لینا چاہیے ورنہ کل ہر حکومت اپنی مرضی کے مجرموں کو رہا کرنے میں اپنا سارازور لگائے گی۔ اس سے ظالموں کو چھوٹ ملتی جائے گی اور مظلوموں کے لیے انصاف کی امیدیں ختم ہو جائیں گی۔
٭٭٭