رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام طنز و مزاح کرنے والوں کے نام
مذاق کے معنی و مفہوم:ہر انسان کوچاہئے کہ پہلے وہ مزاق کے معنی و مفہوم کو سمجھ جائے ، مزاق کا معنی اہل لغت نے یوں بیان کئےہیں مذاق کہتے ہیں ہنسی ، ٹھٹا، دل لگی تمسخر،مزاح گو، ظرافت

محمدعبد الرحیم خرم عمری جامعی
مہتمم ومؤسس جامعہ اسلامیہ احسن الحدیث
عبا داللہ فاؤنڈیشن۔ فون نمبر:9642699901
طنز و مزاح انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے اور انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت بھی ہے، اسی کو ہم مذاق بھی کہتے ہیں انسان کچھ خوش گوار لمحات گزارنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذہن کا بوجھ کم ہو، ہنسی خوشی میں وہ اپنے ذہنی کرب و غم اور دماغی بوجھ کو کم کرلیتا ہے ،اس سے بڑھ کر طنز و مزاح کا اور کوئی فائدہ نہیں ہے، بسا اوقات مذاق مذاق ہی میں بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات یہی مزاق بھاری پڑ جاتا ہے ، ہر چیز کے حدود ہوتے ہیں جب تک بات حد میں رہے تو بہتر ہے اور جب بات حد سے باہر نکل جائے تو انسان اور قوم کے لئے باعث مصیبت بن جاتی ہے کچھ ایسا ہی معاملہ طنز و مزاح کی مجالس و محافل کا بھی ہے، اسی لئے انسان کو حدود کی پاسداری کا خیال رکھنا چاہئے ، مذاق جب حد سے پار نکل جاتا ہے تو وہ استہزاء بن جاتا ہے اور یہی استہزاء حدیںپار کرکے کفر تک پہنچ جاتا ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
مذاق کے معنی و مفہوم:ہر انسان کوچاہئے کہ پہلے وہ مزاق کے معنی و مفہوم کو سمجھ جائے ، مزاق کا معنی اہل لغت نے یوں بیان کئےہیں مذاق کہتے ہیں ہنسی ، ٹھٹا، دل لگی تمسخر،مزاح گو، ظرافت، اسی لئے شاعر نے کہا؎ عشق ہے عشق یہ مذاق نہیں چند لمحوں میں فیصلہ نہ کرو۔
طنز و مزاح کے اصول:اہل علم نے طنز ومزاح کے کچھ اصول بیان کئے ہیں ان اصولوں کا پاس و لحاظ رکھنا ہر ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، مزاح اگر تھوڑی مقدار میں ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، دین کے حدود میں رہتے ہوئے ، حق اور اعتدال سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو خوش کیا جا سکتا ہے ، زیادہ مزاح دلوں پر گراں گزرتا ہے اور دل آزاری کا باعث بنتا ہے مزاح میں مسخرہ پن ، فحش کلامی ، گستاخی یا استہزاء کا عنصر نہیں ہونا چاہئے ، اسی طرح کسی کی نقل اتارنا ،اس پر ہنسنا یا شرمندہ کرنا بھی مقصود نہ ہو ، ایسا مزاح جو سچ پر مبنی ہو لیکن اس میں ایذاء رسانی کا خطرہ ہو تو وہ بھی جائز نہ ہوگا ،جیسے از راہ مزاق کسی کی توجہ ہٹا دینا جس کے سبب حادثہ پیش آجائے مثلا کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل سوار سے کہے کہ پچھلے پہئے گھوم رہے ہیں ، اگر چہ یہ مزاح سچ ہے مگر سوار غلط فہمی میں مبتلاء ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھے گا اور اس کے زمین پر گرنے کا خطرہ ہوگا ، کسی کو نقصان پہنچا کر خوش نہیں ہونا چاہئے ، جیسے کوئی بیٹھنے لگے تو کرسی پیچھے کر دینا تاکہ وہ گر جائے ۔ان تمام اصولوں پر شرعی دلائل موجود ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کوئی بھی اس وقت تک پکا مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک وہ جھوٹ کو نہ چھوڑ دے چاہے مزاق ہی میں کیوں نہ ہو ‘‘( صحیح الترغیب للالبانی2939) اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کسی بھی مسلمان کے لئے مذاقا میں بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو ڈرائے ‘‘( صحیح ابوداؤد للالبانی5004 ) اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کسی مسلمان کے برے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی تحقیر کرےہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حرام کردیا گیا ہے‘‘( مسلم۔2564) ہنسی مزاق سے متعلق علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں:’’ ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں اور جانور نہیں ہنستے ، کیونکہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھداری جانور میں نہیں ہوتی ۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لئے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا ، بلکہ اس کے بر عکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی ہشاش بشاش بنا نے میں مدد گار ثابت ہو اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکارکی شخصیت بارونق، ہشاش بشاش اور تروتازہ ہو ، مرجھائی ہوئی ، بے رونق نہ ہو کیونکہ پزمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے اس اسلامی شخصیت کا نمونہ دیکھنا ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ مطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوں ناگوں دعوتی مسائل اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود ہمیشہ مسکراتے اور خوش رہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی ، اپنے ساتھیوںکے ساتھ بالکل فطری انداز میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی ، کھیل اور ہنسی مزاق کی باتوں میں شرکت فرماتے تھے ، ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کے غموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے‘‘۔
رسو ل اللہؐ کا انداز مذاق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ کبھی کبھی مذاق کیا کرتے تھے لیکن آپ نے کبھی کسی کااستہز ا نہیں کیااپنے صحابہ اکرام کے ساتھ مذاق کرنے کے بہت سے واقعات احادیث میں منقول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق کرنا حق پر مبنی ہوا کرتا تھا جس میں جھوٹ ، استہزا ، طنزو تشنیع ، دل آزاری نہیں ہوتی تھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اِنِّیْ لاَ أَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا‘‘ ’’میں (خوش طبعی اور مزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا‘‘ (ترمذی 1990) اسی طرح ایک اور حدیث شریف میںہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بیشک میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔ بعض صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول! بیشک آپ بھی ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں صرف حق ہی کہتا ہوں‘‘ (مسند احمد۔9919)
واقعہ:(۱)واقعہ یوں کہ سحری کے وقت کے متعلق فرمایا گیا کہ’’ جب تک کہ کالا دھاگا سفید دھاگے سے نہ بدل جائے‘‘ یہ آسمان کی کناروں والی تبدیلی ہے لیکن صحابی رسول نے اسے وہ دھاگا سمجھ بیٹھے جس سے کپڑے سیتے ہیں چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نےایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا (اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ تکئے کے نیچےرکھ لیا )جب رات کا کچھ حصہ گزر گیاتو انہوں نے اسے دیکھا ، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی ، جب صبح ہوئی تو عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے تکئے کے نیچے (سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہوا)تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بطور مذاق کے فرمایا کہ:’’ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفید خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آگیا‘‘ (بخاری: 4509 )
واقعہ:(۲)حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا :کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں! بہت شرکت کی !!آپ جس جگہ پر صبح کی نماز پڑھتے تھے تو سورج نکلنے سے پہلےوہاں سے نہیں اٹھتے تھے ، جب سورج نکل آتا تو آپ وہاں سے اٹھتے ، صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم جاہلیت کے کسی نہ کسی معاملے کو لیتے اور اس پر باہم بات چیت کرتے تو ہنسی مذاق بھی کرتے لیکن آپؐ صرف مسکراتے تھے‘‘ (مسلم 6035)
واقعہ:(۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کرام سے از راہ مذاق کچھ دیگر ناموں سے انھیں پکارا کرتے تھے جیسے حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کبھی کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتے :’’یَاذِا الأُذْنَیْنِ ‘‘ ’’اے دونوں کانوں والے‘‘۔( ترمذی۔3828)
واقعہ:(۴)حضرت انس رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لاتے اور ہمارے ساتھ گھل مل جاتے میرا ایک چھوٹا بھائی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کر لیا کرتے تھے اور اسے ہنسایا کرتے تھے ، اس نے ایک بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا ، وہ مرگیا ، ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسے غمگین دیکھا اور فرمایا :ابو عمیر کو کیا ہوا ، یہ غمگین کیوں ہے ؟ گھر والوں نے بتلایا کہ اے اللہ کے رسول ! یہ جس بلبل کے ساتھ کھیلا کرتا تھا ، وہ مرگیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابو عمیر ! بلبل کیا کیا ؟( مسند احمد۔ 11173)
امہات المؤمنین کا آپس میں مذاق:امہات المؤمنین بھی آپس میں ایک دوسرے سے مزاق کیا کرتی تھیں لیکن ان کا مزاق تضحیک یا تمسخر کے لئے نہیں ہوتا تھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ :’’ ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا درجال سے بہت ڈرتی تھیں،ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہماکے پاس آرہی تھیںکہ دونوں نے از راہ مزاح کہا :’’ سودہ! تم نے کچھ سنا ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ نہیں‘‘بولیں دجال ظاہر ہوگیا ہے۔ یہ سننا ہی تھا کہ حضرت سودہ خوف زدہ ہوکرقریب کے ایک خیمے میں جا گھسیں، حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما ہنستے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیںاور آپ کو اس مزاح کے بارے میں بتایا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیمے کے پاس تشریف لائے اور خیمے کے دروازےپر کھڑے ہوئے اور سودہ رضی اللہ عنہا کوآواز دی کہ: سودہ! ابھی دجال نہیں نکلا ہے ، باہر آجاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر حضرت سودہ باہر آئیں ، ان پر خوف طاری تھا اور بدن پر مکڑی کا جالا لگا ہوا تھا جسے باہر آکر صاف کیا ‘‘( الاصابۃ)
استہزا ومذاق کی ممانعت: دین اسلام میں کسی بھی سبب مذاق و استہزا کی ممانعت بیان کی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو!مرد دوسرے مرد کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں،اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہیہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ،اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے،اور جو توبہ نہ کریںوہی ظالم لوگ ہیں‘‘( الحجرات۔11) اس آیت کریمہ میں مزاق و استہزا سے پیدا ہونے والی تمام صورتوں کوواضح کیا گیا ہے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ فسق و کفر ہے اس طرح کے مسخرے ظالم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو ہوا خارج ہوجائے ، یا کوئی اچانک گرجائے وغیرہ اس پراستہزا نہیں کیا جائیگا کیونکہ ایک طویل حدیث میں ہے کہ صحابہ اکرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت فرمارہے تھے اتنے میں اچانک ’’ ایک آدمی کی ہوا خارج ہوئی تو لوگ اس پر ہنسنے لگے تو آپ نے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئےفرمایا :’’ آخر تم میں کا کوئی کیوں ہنستا ( مذاق اڑاتا)ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتا ہے‘‘ (ترمذی: 3343) اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اپنے بھائی سے نہ لڑائی کرو اور نہ مذاق کرو اور نہ ہی اس سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرو‘‘ (ابوداؤد)اسی طرح ایک اور واقعہ حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ:’’ قریش کے چند نوجوان مقام منی میں حضرت عائشہ رضٰ اللہ عنہا کے ہاں آئے اور وہ ہنس رہے تھے ، انہوں نے دریافت کیا کہ’’ کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : فلاں شخص خیمے کی رسی کے ساتھ ٹھوکر کھا نکر گر گیا ہےاور قیب تھا کہ اس کی گردن ٹوٹ جاتی یا آنکھ ضائع ہوجاتی‘‘ انہوں (عائشہؓ) نے فرمایا’’ مت ہنسو!کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’کسی بھی مسلمان کو کانٹا یا اس سے بڑی چیز نہیں چبھتی مگر اس کے سبب اس کے لئے ایک درجہ (اجر) تحریر کیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹادیا جاتا ہے‘‘ (مسلم:2572) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی تضحیک جائز نہیں ہے۔
شرعی احکام کا مذاق کفر ہے:بعض مسخرے قسم کےلوگ غیر دانستہ و دانستہ طور پر اللہ کی آیتوں اور احادیث مطہرہ کا استہزا کرتے ہیں یہ سراسر کفر ہے ہر مسلمان کو اس سے باز رہنا چاہئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :’’اگر تم ان سے(اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ، کہو کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ، بہانے مت بناؤتم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو ‘‘( التوبہ۔65,66)
بعض امورِ مذاق جنہم کا سبب:بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ازراہ مذاق کہی جاتی ہیں لیکن یہی باتیں انسان کو جہنم تک پہنچادیتی ہیں اسی لئےاللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے والے کاموں میں مذاق نہیں کرنا چاہئےایک واقعہ لمبی احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو افراد کو امیر لشکر بنایا تو ایک امیر لشکر نے اپنی اطاعت کا امتحان لینے لے لئے ازراہ مذاق حکم دیا کہ :’’ کیا تم پر میری سمع و اطاعت فرض نہیں ؟لوگوں نے کہا:کیوں نہیں ؟! انہوں نے کہا: میں تمہیں جو حکم دوں گا وہ تم کروگے ؟ انہوں نے کہا :کیوں نہیں ؟( برابر حکم کی بجاآوری انجام دیں گے)انہوں نے کہا :’’ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میںچھلانگ لگادو۔ لوگ کھڑے ہوئے اور تیاری کرنے لگے ، جب (امیر لشکر ) عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ یہ چھلانگ لگانے والے ہیںتو کہا: رک جاؤ ، میں تم سے مذاق کر رہا تھا ، جب ہم واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا جو امیر تمہیں نافرمانی کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ:1678، مسند احمد۔4932)
مذاق و استہزا مشرکین، یہود و نصاری کی عادت ہیں: مذاق و استہزا در اصل یہود و مشرکین و نصاری کی عادات میں سے ہیں جو اہل ایمان اور اسلامی احکام کامزاق و استہزاکیا کرتے تھے ، جیسا کہ ابو جہل نے واقعہ معراج کا مزاق اڑایا تھا، جن لوگوں نے مسخرے پن کا پیشہ بنا لیا ہے وہ لوگ بھی کہیں نہ کہیں غیر محسوس انداز میںمذاھب اور ان کے احکام و عمل کا استہزا کرتے رہتے ہیں چاہے یہ مسخرے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم ؟۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے مسلمان مسخرے ہیں جو علما کی شخصیت اور ان کے لباس کرتہ پائجامہ،ٹوپی، داڑھی ،نمازیوں،جنت کی حور وں
وغیرہ کا مذاق اڑاتے ہیں اسی طرح بعض اسلامی احکام جیسے نکاح ، طلاق،اذان وغیرہ کا بھی مذاق کئے ہیں، در اصل یہ یہودیت و کفر ہے ۔عہد رسالت میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا حدیث شریف میں ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: ’’کسی مشرک نے مذاق کرتے ہوئے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا تو تم لوگوں کو قضائے حاجت کے آداب تک کی تعلیم دیتا ہے ‘‘( اس مذاق کو سن کر )حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا :جی ہاں بالکل ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قبلہ کی طرف منہ نہ کریں اور نہ پیٹھ اور دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفا نہ کریں اور ان میں کوئی لید ، گوبر اور ہڈی نہیں ہونی چاہئے‘‘ (مسند احمد۔511،512)
مذاق میں سامان چھپانا :مذاق کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا سامان چھپالیا جاتا ہے، جیسے ازراہ مزاق گھڑی ، گاڑی کی کنجی،جوتے یا کوئی اور چیز یہ سب ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے اور یہ عام بات ہے اس طرح کی حرکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ،اس سے بہت سی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں جیسے بد گمانی ہوجاتی ہے ، کسی پر تہمت باندھ دی جاتی ہے ، گالی گلوچ ہو جاتی ہے ، جھگڑا ہوجاتا ہے الغرض بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں لہذا حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ تم میں سے کوئی آدمی نہ حقیقت میں اپنے ساتھی کا سامان لے اور نہ مزاق کرتے ہوئے ، اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی چھڑی اٹھا لے تو وہ اسے واپس کردے‘‘( مسند احمد۔6186)ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی لاٹھی ہنسی مذاق کے طور پر اسے غصہ دلانے کے لئے نہ لے، جوشخص اپنے بھائی کی لاٹھی لے لے تو وہ اسے واپس کردے‘‘( مشکوۃ المصابیح۔2948)
مذاقاً جھوٹ نہیں کہنا چاہئے:ہنسی مذاق و مسخرہ پن میں بہت جھوٹ بولا جاتا ہے جھوٹ اسلام میں سختی کے ساتھ ممنوع ہے، مسخرے قسم کے لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص مزاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے میں اس کے لئے جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں‘‘( ابوداؤد)اسی طرح کی ایک حدیث مبارکہ میں جھوٹ بول کر ہنسانے والوں کے حق میں وعید سنائی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کا برا ہو‘‘ (ابوداؤد) گویا اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسخروں کے حق میں بد دعا دی ے۔
مذاق میں کی گئی باتوں پر اللہ سے دعا:جس کسی مسلمان نے ازراہ مزاق کسی کی دل آزاری کی ہو یا کسی انسان کا استہزاکیا یا مسخرہ پن کا پیشہ اختیار کیا ہو ایسے مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے مغفرت کی دعا کرتا رہے ،اس ضمن میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی ہے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطَایَایَ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ، وَمَاأَنْتَ أَعْلَمُ بِہ مِنِّی، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِی جَدِّی وہُزْلِیْ وخَطَئ وعَمْدِی،وکل ذالک عندی‘‘ اے اللہ میرے لئے میرے گناہ بخش دے ، جو میں نے جہالت کی وجہ سے کئے ، جو میں نے حد سے تجاوز کیا اور جن گناہوں کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، اے اللہ ! جو میں نے سنجید گی میں کئے جو مزاق میں کئے ، جو نادانستہ طور پر کئے اور جو جہالت کی وجہ سے کئے میرےسارے گناہ بخش دے ‘‘( مسند احمد۔5639) اس ضمن میں اور بھی مواد ہے ان شا اللہ ہماری کتاب میں ملاحظہ فرمائیں ۔
٭٭٭