زیادہ سے زیادہ نفع
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت متعین کرنے کو پسند نہیں فرمایا ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیمت مقرر کرنے والی ، قیمت گھٹانے والی ، بڑھانے والی اور روزی دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
سوال:- ہمارے کاروبار میں ہر چیز پر منافع الگ الگ ہوتے ہیں ، کسی پر 5%، کسی پر 10% ، کسی پر 15% ، کسی پر 50% سے بھی زیادہ ہوتا ہے ، غور طلب بات یہ ہے کہ ہم کتنا منافع زیادہ سے زیادہ لے سکتے ہیں ؟(فرازاحمد، ہائی ٹیک سیٹی)
جواب :- شریعت میں منافع کے لئے کوئی ایسی حد مقرر نہیں ہے ، جس پر عمل کرنا ضروری ہو اور جس سے زیادہ یا کم نفع نہ لیا جاسکتا ہو ،
صحابہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ گرانی بڑھ گئی ہے ؛ اس لئے آپ چیزوں کی قیمت متعین فرمادیجئے ، کہ اسی قیمت پر خرید وفروخت کی جائے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمت متعین کرنے کو پسند نہیں فرمایا ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیمت مقرر کرنے والی ، قیمت گھٹانے والی ، بڑھانے والی اور روزی دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے :
’’ ان اﷲ ھو المسعر ، القابض ، الباسط ، الرازق الخ ‘‘ ( سنن ابن ماجہ ، باب من کرہ ان یسعر، حدیث نمبر : ۲۲۰۰)
اسی لئے فقہاء نے معمول کے حالات میں حکومت کو کسی شئے کی قیمت مقرر کرنے سے منع فرمایا ہے ؛ البتہ اگر تجار زیادتی کرنے لگیں اور نامنصفانہ طورپر قیمتیں بہت بڑھادیں تو حکومت قیمت مقرر کرسکتی ہے ، جیساکہ آج کل بعض اوقات گراں فروشی پر کنٹرول کے لئے حکومتیں قیمتیں مقرر کرتی ہیں :
’’ … إلا إذا تعدی الارباب عن القیمۃ ، تعدیا فاحشاً ، فیسعر بمشورۃ أہل الرائی‘‘ (درمختار علی ہامش الرد : ۹؍ ۵۷۳) —
اس لئے اُصولی طورپر بیچنے والا خود اپنے سامان کی قیمت متعین کرسکتا ہے ؛ البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کسی شئے کی زیادہ سے زیادہ جو قیمت مارکٹ میں پائی جاتی ہو ، اس سے بھی زیادہ قیمت وصول کی جائے ، اس کو ’ غبن فاحش ‘ کہتے ہیں :
’’ أما اذا کان البیع أوالشراء بغبن فاحش ، وھو مالا یتغابن فیہ الناس عادۃ ، فإن العقد لا یکون صحیحاً‘‘ ( الموسوعۃ الفقہیہ : ۶؍۲۱۳)—
ایسی ہی بدترین صورتوں میں یہ ہے کہ قیمت متعین کرتے ہوئے کسی شخص کی مجبوری کا استحصال کیا جائے ، جیسے کسی مرض کی دوا کی اصل قیمت دوسو روپے ہو ، دوا کی فوری ضرورت ہو ، مارکٹ میں دوسری دکانیں بند ہوں یا کھلی ہو ں؛
لیکن دوا دستیاب نہ ہو ؛ اس لئے جس کے پاس دوا ہے ، وہ اس دوا کے لئے ایک ہزار روپے کا مطالبہ کرے تو یہ درست نہیں ، یہ ایک مجبور شخص سے اس کی مجبوری کا فائدہ اُٹھانا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کی بیع سے منع فرمایا ہے :
’’ قد نھی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عن بیع المضطر‘‘ (سنن ابی داؤد ، کتاب البیوع ، حدیث نمبر : ۳۳۸۲)، یہ اس میں شامل ہے ۔