محمد انیس الدین
اسرائیلی دہشت گرد ریاست نے 48 دن تک فلسطینیوں کی نسل کشی کی اور پھر قطر کی ثالثی سے حماس کے ساتھ چا رروزہ جنگ بندی ہوئی لیکن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی درندوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھی۔ جنگ بندی کے پہلے روز ہی اپنے گھروںکو واپس لوٹنے والے نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ اس کے برخلاف حماس اور دیگر مزاحمتی گروپس معاہدہ کی مکمل پاسداری کررہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی فوج پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ چونکہ قرآن کریم کی رو سے یہودی غدار اور عہد شکن لوگ ہیں‘ اس لئے ان کے معاہدوں پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا۔ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کے واقعات کادنیا نے مشاہدہ کیا اور ہر آنے والے دن اسرائیلی درندگی بے نقاب ہوتی جارہی ہے ۔ چونکہ عالمی میڈیا کی نظر قیدیوں کے تبادلہ پر مرکوز ہے اس لئے اسرائیل اور حماس دونوں کارویہ بھی میڈیا کی نظرسے سارے عالم کے سامنے آرہا ہے۔ جنگ بندی کے پہلے دن جب اسرائیلی یرغمالیوں کو مجاہدین ریڈ کراس کے حوالے کررہے تھے تو سب ہشاش بشاش تھے اور جاتے ہوئے اہل غزہ کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کرتے دکھائی دے رہے تھے جبکہ یرغمالی بچوں کو نئے کپڑے پہنا کر رخصت کیا گیا۔ مجاہدین کے حسن سلوک کیگواہی پہلے بھی رہا ہونے والی اسرائیلی معمر خاتون دے چکی ہے۔ رہاہونے والی خواتین کے مطابق ان کو یرغمال ہونے سے رہائی تک کسی قسم کی اذیت نہیں دی گئی۔ہمارے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا ۔ ہم کو کسی خوفناک صورتحال کا سامنا نہیں ہوا۔ جن کے بارے میں ہم کو سنایا گیا تھا ۔ لیکن جب جنگ بندی کے دوسرے فریق نے قیدیوں کو حوالہ کیا تو ان میں بعض چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ خاص کر باسل عبایدہ جو وقت گرفتاری کڑیل جوان تھا۔ اسے جب 16سال بعد رہا کیا گیاتو بے پناہ درندگی کی وجہ سے وہ اپنا دماغی توازن کھوچکاتھا۔ اس کے رشتہ دار اس ملنے کی خواہش میں جیل کے باہر کھڑے تھے۔ مگر باسل نے نہ تو والدہ کو پہچانا اورنہ ہی بھائی بہن کو ۔ مجاہدین اور دہشت گردوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں اسرائیل سے نفرت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر جان میرشیمر کا اسرائیلی تحقیقی مرکز کے حوالہ سے کہنا ہے کہ 7اکتوبر سے 13اکتوبر تک پہلے 6دنوں میں عالمی رائے عامہ کا 69فیصد فلسطینیوں کا حامی اور31فیصد اسرائیل کا حامی تھا۔ لیکن 13اکتوبر سے اب تک عالمی رائے عامہ کا95فیصد فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے اور صرف 5 فیصد اسرائیل کا حامی رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد رفح سرحد کھولی گئی تو بلجیم کے وزیراعظم الیکزینڈر ڈی کرو بہ نفس نفیس خود وہاں موجود تھے۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اس کو سیاسی طور پر حل کرنا ہوگا۔ ہم غزہ کی تباہی اور معصوم شہریوں کے قتل عام کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ بات اسپین بھی کہہ رہا ہے اور دیگر کئی ممالک اب کھل کر اسرائیل کے خلاف میدان میں آچکے ہیں۔ کئی ممالک نے تو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کردیا ہے۔ یہ خالص انسانی ہمدردی کا جذبہ ہے۔ اس تعلق سے مسلم ممالک سے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے کی توقع تھی لیکن ان کا کردار شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔ بہر حال فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کی دہشت گردی کو طشت از بام کردیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو وہ وقت دور نہیں کہ مظلوموں کا خون رنگ لائے گا اور مسئلہ فلسطین کا ایک پائیدار حل سامنے آئے گا۔
مسلم ممالک فلسطینی عوام کا ساتھ دیں اور ان کی ہر طریقہ سے مدد کریں۔ آخر مسلم امہ کیوں بے حسی‘خود غرضی اور مفاد پرستی کی روش پر ہے۔ کیایہ سمجھتے ہیں کہ اس خاموشی پر اسرائیل ان سے حسن سلوک کرے گا۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ ایک کے بعد ایک اسرائیل ہر عرب اورمسلم ملک کی خبر لے گا۔ مسلم ممالک جب تک حرکت میں نہیں آئیں گے جب تک ان کے دلوں سے امریکہ اور اسرائیل کا خوف نکل کر خالق کائنات جو صر ف اور صرف واحد سوپر پاور ہے کا یقین کامل نہ ہوجائے۔ کیا اپنے خالق کے ساتھ کسی اور دنیاوی ‘ مجازی طاقتوں کو سوپر پاور تسلیم کرنا‘ مسلمانوں کے عقیدہ توحید کے منافی نہیں ہے؟
عقیدہ توحید کے تقاضوں پر کامل یقین کے ساتھ عمل کرو جیسے یقین کی مثال فلسطین اور غزہ کے مسلمان کررہے ہیں۔ اس یقین کامل کے بعد آپ کو مجازی عالمی طاقتو ںکی قدم بوسی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور دنیا کو امن کی رہنمائی ملے گی۔ صیہونی طاقتیں صرف توحید کی طاقت سے خوفزدہ ہیں اور اسی خوف میں سارے عالم میں دہشت اور بربادی کا طوفان برپا کئے ہوئے ہیں۔ اسلام دشمن یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان توحید سے دور ہوجائیں اور ان کے دلوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ختم ہوجائے اور مسلمان قرآن سے دورہوجائیں۔ دشمنان اسلام ‘ مسلمانوں کیخلاف جتنی بھی سازشیں اور منصوبے بنارہے ہیں‘ خالق کائنات ان کے منصوبوں کو ناکام کرتے جارہے ہیںاور سارے عالم کے مسلمان اسلام اور مسلمانوںسے نہ صرف قریب ہورہے ہیں بلکہ قبول اسلام کا شرف بھی حاصل کررہے ہیں ۔
صیہونی طاقتیں بے چین اور بے قرار ہیں‘ ان کی جھوٹ کا جال جو سارے عالم پر چھایا ہوا تھا آئرن ڈوم کی طرح مسمار ہوکر دہشت گرد طشت از بام ہوگئے اب یہی طاقتیں سارے یورپ کو یہ کہہ کر ورغلارہے ہیں کہ جو حشر توحید والوں نے اسرائیل کا کیا وہی حشر سارے یورپ کا ہوگا۔
مسلمانوں سے متعلق ایک یہودی کی تحقیق سامنے آئی جو کہتا ہے کہ وہ اردن کا یہودی ہے اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کررہا ہے اور مسلمانوں کی شدت پسندی پر تحقیقی مقالہ لکھ رہا ہوں۔ اور میری تحقیق مکمل ہوگئی ہے۔ تحقیق سے کیا ظاہر ہوا ؟ سوال کرنے پر اس یہودی نے بتایا کہ ’’ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کرجاتے ہیں لیکن نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے۔ میری تحقیق کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے اس کی وجہ نبی کی ذات تھی‘ آپ ان کی مسجد پر قبضہ کرلیں ‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کردیں‘ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگادیں‘ یا آپ ان کا پورا خاندان ماردیں‘ یہ برداشت کرجائیں گے لیکن جوں ہی آپؐ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکراجائیں گے۔ جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ آپ اگر اسلام کوختم کرنا چاہتے ہیں تومسلمانوں کے دل سے ان کے رسول کی محبت کو نکالنا ہوگا۔
اسلام دشمن طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان عقیدہ توحید سے دور ہوجائیں کیوں کہ ان کو خالق پر پختہ یقین ‘ نبی اور قرآن پر ایمان کامل سے خطرہ لاحق ہے وہ چا ہتے ہیں کہ مسلمان طاغوتی رنگ میں مل جائیں۔ اس مقصد کیلئے ساری صیہونی طاقتیں منظم منصوبہ بندی اور کامل اتحاد سے حصول مقصد کیلئے کوشاں ہے۔
اس کے برعکس مسلمان انتشار اورافراتفری اور مفاد پرستی کا شکار ہیں۔ مسلمان اس بات کو سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں کہ ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون۔ قرآن صاف اور واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمان کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے ۔ ان پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن ان واضح ہدایات کے باوجود بھی مسلمان ان پر بھروسہ کرتے ہیں جن کا نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے غزہ میں خوفناک درندگی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی انہی طاقتوں کی کارستانی تھی جس کے نقصانات آج بھی اس کے متاثرین برداشت کررہے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ میں ناٹو کی شرکت سے عالمی جنگ کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ اگر ناٹو شرکت کرتا تو سارا یورپ تباہ و تاراج ہوجاتا۔ یورپ کو اس بربادی سے بچانے کے لئے فلسطین کے مسئلہ کو پیچیدہ کرتے ہوئے صیہونی طاقتوں نے عالمی بربادی اور تیسری جنگ عظیم کیلئے سرزمین عرب کا انتخاب کیا۔ ناٹو یوکرین میں مداخلت کی جرأت نہ کرسکا۔ اگر وہ ایساکرتا تو روس فوری طور پر ناٹو ممالک کو گیس کی فراہمی روک دیتا اور موجودہ سرد موسم میں ناٹو کی عوام بغیرجنگ کے ہلاک ہوجاتی ‘ اب اسرائیلی معلون درندہ صفت وزیراعظم ناٹو ممالک کو نہ صرف مدد کیلئے للکاررہا ہے بلکہ متحدہ طور پر غزہ کی درندگی میں شرکت کی دعوت دے رہا ہے۔
عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن اس ہتھیار کو ایک حق اور باطل کے معرکے میں استعمال کرنے سے مجبور اورلاچار ہیں۔ اگریہ ہتھیار استعمال ہوتا ہے جس کا نعرہ شاہ فیصل مرحوم نے لگایا تھا تو سرزمین عرب صیہونی غلامی میں نہ جاتی۔ لیکن آج تک مسلمانوں کی غیرت نہیں جاگی۔ غزہ کی اسرائیلی درندگی اس صدی کا المیہ ہے اور یہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہی ہے۔ دشمن سارے عرب کو تباہ و تاراج کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور یہ ممالک اپنے مفادات کی قربانی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل ناٹو کو آواز دے رہا ہے اور فلسطینی عرب لیگ کو للکار رہاہے۔ یہ سب عرب ممالک فلسطین کے قریب ہیں اگر یہ جاگ جائیں تو اسرائیل سانس نہیں لے سکتا لیکن ناٹو اور چاٹو ممالک میں فرق ہے۔ ناٹو متحد ہے اور چاٹو منتشر ہیں۔ یہ ممالک کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔
غزہ کے جانبازوں نے عقیدۂ توحید کا دامن تھام لیا اور حضرت محمدؐ اور قرآن کو اپنا رہنا اور رہبر مان لیا جس کا نتیجہ دنیا کے سامنے آیاکہ ایک ماں اپنے لخت جگر کی شہادت پر پرسہ قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے مبارکباد دو کہ میرا بیٹا حق کیلئے شہید ہوا اور وہ ہتھیار تھام کر دشمن کے خلاف میدان جنگ میں آجاتی ہے۔ یہ کیفیت صرف اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب کوئی مسلمان عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مکمل قرآن اور سنت کی رہبری ‘ رہنمائی میں آجاتا ہے۔ توحید کا ہتھیار عام دنیاوی ہتھیاروں سے موثر اور طاقتور ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰