شادی کے بغیر تعلقات کے واقعات میں اضافہ تشویشناک: کیرالا ہائیکورٹ

جسٹس صوفی تھامس نے کہاکہ جب متحارب جوڑے اپنے بچوں کو چھوڑدیں اور ہماری آبادی میں طلاق کی خواہش بڑھ جائے تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس سے ہماری سماجی زندگی کا سکون متاثر ہوگا اور ہماری سوسائٹی میں ترقی گھٹ جائے گی۔

کوچی: کیرالا ہائی کورٹ نے طلاق کی عرضی رد کرتے ہوئے صارف کے استعمال کرو اور پھینکو (Use and Throw) کے کلچر کی مذمت کرتے ہوئے سخت مشاہدات پیش کئے جن میں ایک مشاہدہ میں کہا گیا ہے کہ نئی نسل شادی کو ایک برائی کے طور پر دیکھتی ہے اور آزاد زندگی سے لطف اندروز ہونے کیلئے اس سے بچنا چاہتی ہے۔

شادی کے بغیر تعلقات کے ساتھ زندگی گزارنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں سماج کے ضمیر کے لئے پریشان کن صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے۔

جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس صوفی تھامس نے گذشتہ ہفتہ ایک شخص کی جانب سے مبینہ ازدواجی تنازعات پر داخل کی گئی اپیل رد کرتے ہوئے یہ تبصرے کئے۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ آج کل نوجوان نسل سوچتی ہے کہ شادی ایک برائی ہے اور کسی ذمہ داریوں یا پابندیوں سے آزاد زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس سے بچا جاسکتا ہے۔ وہ شادی کے بارے میں قدیم عمومی تصور شادی ہمیشہ کے لئے دانشمندانہ سرمایہ کاری کے بدلے اس کاہمیشہ کے لئے مدعو کی گئی پریشانی کے طور پر تقابل کریں گے۔

یہ شخص ہائی کورٹ سے رجوع ہوا۔ فیملی کورٹ نے اس کی درخواست رد کردی۔ کیونکہ بیوی نے شوہر کے ان دعوؤں کو رد کردیا کہ اس نے شوہر پر حملہ کیا۔

ہائی کورٹ نے 24 اگست کوصادر کئے گئے فیصلہ میں کہا کہ متاثرہ اور تباہ حال خاندانوں سے آنے والی چیخ و پکاروں سے سماج کا ضمیر دہل جانا ضروری ہے۔ جسٹس صوفی تھامس نے کہاکہ جب متحارب جوڑے اپنے بچوں کو چھوڑدیں اور ہماری آبادی میں طلاق کی خواہش بڑھ جائے تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس سے ہماری سماجی زندگی کا سکون متاثر ہوگا اور ہماری سوسائٹی میں ترقی گھٹ جائے گی۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ کیرالا کبھی مضبوط خاندانی رشتوں کے لئے مشہور تھا‘ مگر موجودہ رحجان سے یہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلمی یا خود غرضانہ وجوہات پر شادی توڑنا یا حتیٰ کہ ان کے بچوں کی فکر کئے بغیر شادی کے بناء تعلقات زیادہ ہوگئے ہیں۔

مزید برآں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صارف کا استعمال کرو اور پھینکو کا کلچر ہمارے ازدواجی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔شادی کے بغیر تعلقات کے ساتھ زندگی گزارنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button