دہلی

قطب مینار کی ملکیت کے حقوق دیئے جائیں۔ عدالت میں درخواست

قطب مینار کامپلکس میں ہندو اور جین مندروں اور دیوی دیوتاؤں کے مورتیوں کی بحالی سے متعلق معاملے کے دوران اے ایس آئی نے یہ بیان دیا۔

نئی دہلی: آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے چہارشنبہ کے روز ایک شخص کی مداخلتی درخواست کی مخالفت کی جو آگرہ کے شاہی خاندان کا وارث ہونے کا دعویدار ہے اور قطب مینار کی ملکیت کے حقوق چاہتا ہے۔

اے ایس آئی نے سوال کیا کہ وہ گزشتہ 150 سال سے کیوں خاموش ہے اور کسی عدالت میں یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ اس معاملہ کی سماعت ساکیت عدالتوں کے سیول جج دنیش کمار کے اجلاس پر ہورہی تھی۔

قطب مینار کامپلکس میں ہندو اور جین مندروں اور دیوی دیوتاؤں کے مورتیوں کی بحالی سے متعلق معاملے کے دوران اے ایس آئی نے یہ بیان دیا۔

کنور مہیندر دھوج پرساد سنگھ کا دعویٰ ہے کہ وہ متحدہ صوبہ آگرہ کے شاہی خاندان کا وارث ہے اور اسے میرٹھ تا آگرہ علاقوں کے ملکیتی حقوق حوالے کئے جائیں۔ یہ مداخلتی درخواست ایڈوکیٹ ایم ایل شرما کے ذریعہ داخل کی گئی۔

مقدمہ کی سماعت کے دوران اے ایس آئی کے وکیل سبھاش گپتا نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص کئی ریاستوں کے وسیع و عریض علاقوں کا دعویدار ہے لیکن گزشتہ 150 سال سے خاموش بیٹھا ہوا ہے اور کسی بھی عدالت میں یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔

اے ایس آئی نے کہا کہ اچانک اسے اپنی جائیداد کا خیال آیا اور وہ کسی ثبوت کے بغیر اس عدالت سے رجوع ہوا ہے اور معاملہ کا فریق بن گیا ہے۔ اے ایس آئی نے ایک خاتون سلطانہ بیگم کے مماثل کیس کی بھی نشاندہی کی جنہوں نے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے کی بیوی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

انہوں نے لال قلعہ کی مالک ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا لیکن عدالت نے اس کیس کی تفصیلات میں گئے بغیر محض اس بنیاد پر درخواست کو مسترد کردیا تھا کہ اس میں بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ اس معاملہ کی مزید سماعت 13 ستمبر کو ہوگی۔

کنور مہیندرسنگھ نے اپنی مداخلتی درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کا تعلق بیسوان خاندان سے ہے اور وہ راجا روہنی رمن دھوج پرساد کا وارث ہے جو راجا نندرام کے وارثین میں شامل تھے جن کا انتقال 1695 میں ہوا تھا۔ درخواست میں کہا گیا کہ جب اورنگ زیب نے اپنی حکومت کو مستحکم بنالیا تو نندرام نے شہنشاہ کے آگے خودسپردگی اختیار کی تھی اور انہیں جور اور توچی گڑھ علاقوں کی خدمت زمین داری اور مالیہ کی وصولی کا انعام دیا گیا تھا۔

1947 میں راجا روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کے ایک اور رکن خاندان کے دور میں برٹش انڈیا اور اس کے صوبے آزاد و خودمختار بن گئے۔ بہرحال ہندوستان کی آزادی کے بعد حکومت نے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور نہ حکمراں خاندان کی تخت نشینی کی گئی۔

مرکزی حکومت، دہلی کی ریاستی حکومت اور اترپردیش کی حکومت نے قانونی عمل کے بغیر ہی درخواست گزار کے قانونی حقوق پر قبضہ کرلیا اور اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہوئے جائیداد دوسروں کو آلاٹ کردی۔ اس معاملہ کی اصل درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 1198 ء میں شہنشاہ قطب الدین ایبک کے دور میں 27 ہندو اور جین مندروں کی بے حرمتی کی گئی اور انہیں تباہ کیا گیا اور ایبک نے ان مندروں کی جگہ پر یہ مسجد تعمیر کردی۔

مندروں کو منہدم کیا گیا، ان کی بے حرمتی کی گئی اور انہیں تباہ کیا گیا۔ ان کی جگہ پر مسجد قوت الاسلام تعمیر کردی گئی۔