مردوں اور عورتوں کی نماز کے درمیان فرق؟

نماز میں جن امور کو انجام دیا جاتا ہے، ان میں بعض کا تعلق قول یعنی بول سے ہے، جیسے تکبیر تحریمہ کہنا، سورۂ فاتحہ اور کسی اور سورہ کی تلاوت، ثنا، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، تشہد وغیرہ، ان امور میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے،

سوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، جب کہ ہم لوگوں کے یہاں ہمیشہ سے عورتیں بعض افعال کو مردوں کے طریقہ سے ہٹ کر اد ا کرتی ہیں، یہ کس حد تک صحیح ہے؟ (حسن علی، سلطان شاہی)

جواب: نماز میں جن امور کو انجام دیا جاتا ہے، ان میں بعض کا تعلق قول یعنی بول سے ہے، جیسے تکبیر تحریمہ کہنا، سورۂ فاتحہ اور کسی اور سورہ کی تلاوت، ثنا، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، تشہد وغیرہ، ان امور میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے،

اسی طرح جو افعال اعضاء وجوارح سے متعلق ہیں، جیسے قیام، رکوع ، سجدہ، قعدہ، یہ بھی مردوں اور عورتوں دونوں کی نماز میں یکساں طور پر فرض یا واجب ہیں؛ لیکن ان افعال کو کس کیفیت اور ہیئت میں انجام دیاجائے؟ اس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے،

عورتوں کو اس انداز پر ان افعال کو کرنے کا حکم ہے جس میں اعضاء کی ساخت اور ہیئت کم سے کم ظاہر ہو؛ کیوں کہ بمقابلہ مردوں کے ان کے لئے جسم کو چھپانے کی زیادہ تاکید ہے؛ اسی لئے عام حالات میں بھی انہیں مردوں کی جسم پوشی کے مقابلہ زیادہ جسم پوشی کا حکم دیا گیا ہے، اور اس لباس کے اوپر پھر ایک ایسا لباس پہننے کی تاکید کی گئی ہے ، جو پورے بدن کو ڈھانک لے، جس کے لئے فی زمانہ برقعہ کا استعمال کیا جاتا ہے،

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عہد نبوت کو سر کی آنکھوں سے دیکھے ہوئے صحابۂ کرام اور پھر صحابہ سے دین کا علم حاصل کرنے والے اجلۂ تابعین کے یہاں اس کی تاکید ملتی ہے، حضرت وائل بن حجرؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: اے وائل! جب تم نماز شروع کرو تو اپنا ہاتھ اپنے کانوں کے مقابل رکھو اور عورتیں اپنا ہاتھ اپنے سینہ کے مقابلہ میں رکھیں۔

إذا صلیت فاجعل یدک حذاء اذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۱۷۴۹۷)عطاءؒ بڑے بلند پایہ تابعی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب عورت رکوع کرے تو اپنا ہاتھ جہاں تک ہو سکے اپنے پیٹ سے چپکا کر رکھے، اور جب سجدہ میں جائے تو اپنے ہاتھ کو پیٹ اور ران سے چپکا کر رکھے۔ تجتمع المرأۃ اذا رکعت ترفع یدیھا إلی بطنھا، وتجتمع ما استطاعت فإذا سجدت فلتضم یدیھا إلیھا وتضم وصدرھا إلیٰ فخذیھا، وتجتمع ما استطاعت (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: ۵۰۶۹)

ظاہر ہے محدثین اور فقہاء کے استاذ الاساتذہ عطاء بن ابی رباح نے جو تعامل عہد صحابہ سے اپنے دور تک کا دیکھا ہوگا، اسی کی روشنی میں فتویٰ دیا ہوگا، امام نافع نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں، انہوں نے فرمایا: پہلے تو قعدہ کی حالت میں آلتی پالتی بیٹھتی تھیں، پھر انہیں حکم فرمایا گیا کہ اپنے اعضاء کو خوب ملا کر بیٹھا کریں،

جس کو اصطلاح میں تورک کہتے ہیں۔ یضممن أعضائھن بأن یتورکن في جلوسھن (شرح مسند ابو حنیفہ: ۱؍۱۹۱) ان احادیث وآثار سے معلوم ہوا کہ خواتین جب نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھائیں تو سینہ تک اُٹھائیں، رکوع، سجدہ اور قعدہ میں اپنے جسم کو مِلا مِلاکر رکھیں، اور جب تکبیر میں اپنے ہاتھ سینے تک اُٹھائیں گی تو ظاہر ہے کہ حالت قیام میں بھی ہاتھ سینے ہی پر باندھیں گی، غرض کہ بعض افعال کو ادا کرنے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان ہیئت کا فرق حدیث سے بھی ثابت ہے اور یہ عقل ومصلحت کا تقاضہ بھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button