حیدرآباد
ٹرینڈنگ

تلنگانہ کے 5یا6بڑے محکموں میں کرپشن کی شکایت عام

بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ بھی کرپشن سے ابھی پاک نہیں ہواہے۔ریاست کے 5 سے زائد ایسے محکمہ ہیں جہاں کرپشن کاچلن نسبتاًزیادہ ہے۔ ان محکموں میں ضروری کاموں کے لئے عوام کودل کھول کر لوٹا جاتاہے۔

حیدرآباد: ملک کی کوئی بھی ریاست کی حکومت یہ دعویٰ کرنے کے موقف میں نہیں ہے کہ وہ ریاست سے کرپشن کوصدفیصدختم کرچکی ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں کے محکموں میں کرپشن سرایت کرچکا ہے۔

متعلقہ خبریں
تلنگانہ میں تنہا کامیابی حاصل کرنے بی جے پی کو شاں: ترون چگھ
اروند پنگڑیا، 16ویں فینانس کمیشن کے سربراہ مقرر
سرکاری عہدیداروں کو معمول کی کارروائی کے طور پر طلب نہیں کیا جاسکتا: سپریم کورٹ
کانگریس پانچوں ریاستوں میں حکومت قائم کرے گی: اشوک گہلوت
چندرابابو نائیڈو سنٹرل جیل راجمندری منتقل

بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ بھی کرپشن سے ابھی پاک نہیں ہواہے۔ریاست کے 5 سے زائد ایسے محکمہ ہیں جہاں کرپشن کاچلن نسبتاًزیادہ ہے۔ ان محکموں میں ضروری کاموں کے لئے عوام کودل کھول کر لوٹا جاتاہے۔

اے سی بی کے حکام اگرچیکہ رشوت خورعہدیداروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہر سطح پر رشوت کاچلن عام ہے۔ یہاں یوں کہاجائے توبیجانہ ہوگا کہ رشوت کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوپاتا۔

بتایا جاتاہے کہ 5کرپٹ محکموں میں آرٹی اے محکمہ بھی شامل ہے۔ہرعام آدمی کااس محکمہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ڈرائیونگ لائسنس کی تیاری وتجدید‘گاڑی کی آرسی بک‘گاڑی کا فٹنس کرانا ہویا پھر حمل ونقل سے متعلق کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے رشوت دینا ضروری ہواگا۔یہاں درمیانی افراد (ایجنٹس) کارول بھی اہم رہتا ہے۔

آرٹی اے سے مربوط کسی کام کے لئے ایجنٹ سے ربط پیدا کرنے پر پہلے وہ آپ کویہ بتادیتاہے کہ بھائی!آفس میں  بھی مجھے پیسے دینے پڑتے ہیں! آرٹی اے عہدیدار‘راست طورپرعوام سے رشوت کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ وہ مبینہ طورپران ہی ایجنٹس کے توسط سے رقم حاصل کرتے ہیں۔

ایجنٹ‘ لائسنس بنوانے کے لئے 3ہزار روپے کا مطالبہ کرتاہے اور وہ ایجنٹ اپنا حصہ اس میں 500 روپے بتادیتا ہے۔ وہ مبینہ طورپرآرٹی اے عہدیدار کوایک لائسنس پر 500 روپے ادا کرتا ہے۔

 گاڑی کا فٹنس اور آرسی بک کے لئے علحدہ علحدہ طورپر ایک ایک ہزار روپے طلب کرتاہے۔ آرٹی اے آفس میں نمایاں مقام ایک بورڈ نصب ہوتا ہے جس پر ”MAYI HELPYOU“تحریر ہوتی ہے۔

اس بورڈ کے نیچے ایک ٹیبل اورایک کرسی ضرور ہوتی ہے مگر اس کرسی پر کوئی براجمان نہیں رہتا۔اگر وہاں کوئی موجود بھی ہوتو وہ صرف کاونٹرکی نشاندہی کرتاہے اور کہتا ہے کہ فلاں کاونٹر نمبر پر جائیں۔ ایجنٹ بھی صرف آپ کا فام آن لائن بھرتاہے اور سلاٹ بک کراتاہے۔

 مقررہ وقت پر آپ کودفتر آرٹی اے لیجاکر کہتاہے کہ آپ کو اس کاونٹرپر کھڑے رہناہے اورفلاں کاونٹر پر فام داخل کرناہے اور فلاں کاونٹر پر تصویرکشی کرناپڑتی ہے۔یہ کام خود‘امیدوار کوکرنے پڑتے ہیں جبکہ اس کے پورے پیسہ ایجنٹ ہڑپ کرجاتاہے۔

نئی گاڑی کے رجسٹریشن کے لئے بھی تمام کارروائی خودہی انجام دینا پڑتی ہے جبکہ رجسٹریشن کی فیس گاڑی کی خریدی کے وقت شوروم پر ادا ہوجاتی ہے۔ نمبرالاٹ کرانے کے لئے دفتر آرٹی اے کے چکرکاٹنے پڑتے ہیں۔

دفتر احاطہ آرٹی اے میں سادہ لباس میں ملبوس ہوم گارڈز یاایجنٹس درخواست گزاروں سے مزید رقومات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بتایا گیاہے کہ محکمہ ریونیو(مال) کی صورتحال بھی اس سے الگ نہیں ہے۔

اس محکمہ میں مبینہ طورپر رشوت کاچلن عام ہونے کی شکایت عام ہے۔رشوت کے بغیرمعمولی کام بھی پورا نہیں ہوتا۔ایک فائل کو ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک لیجانے کے لئے اٹنڈرچائے پانی کے لئے پیسے دینے پر زوردیتاہے۔دھرانی پورٹل متعارف کرانے کے بعد اراضیات کے رجسٹریشن میں درمیانی افراد کا عمل داخل عملاً ختم ہوگیا ہے۔محکمہ پولیس بھی کرپشن سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

بتایا جاتاہے کہ کسی ملزم کی رہائی کے لئے رشوت دینا ضروری ہوگیاہے۔ پولیس کی لسٹ سے نام حدف کرانے‘ ملزم کوخودسپردکرانے‘درج شکایت سے دستبرداری کے لئے بھی مبینہ طورپر رشوت طلب اورقبول کی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں محکمہ تعلیمات‘آبکاری اور آبپاشی میں بھی رشوت کاچلن عام ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ بغیر رشوت کے کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی) کے ارباب مجاز کوچاہئے ایسے تمام سرکاری محکموں کے دفاتر میں جہاں رشوت کے چلن کی شکایت عام ہو وہاں اے سی بی کی ٹیمیں تعینات کرنی چاہئے۔رشوت خور ملازمین اور عہدیداروں کوجال بچھاکر پکڑنا چاہئے تاکہ عوام کولیٹروں سے بچایا جائے۔