کیاترکی کے زلزلے انسانی کارستانی کا نتیجہ ہیں؟
اگرچہ اس آفت ناگہانی کے پس پردہ انسانی کارستانی ہونے کے بارے میں جو کچھ بھی دعوے کئے جارہے ہیں ان کی نفی سائنسی اداروں کی جانب سے شدت سے کی جانے لگی ہے اور اس کو سازشی نظریہ سازوں کا تخیل قرار دیا جارہا ہے
اطہر معین
[email protected]
ترکی اور شام میں گزشتہ ہفتہ آئے متواتر ہلاکت خیز زلزلوں میں 21,000 سے زائد انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں اور ان میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے۔ز لزلہ کے بعد جو دل خراش مناظر دیکھنے کو ملے ہیں اس نے ہر نرم دل انسان کو اشک بار کردیا اور لرزادیا۔ یہ زلزلے ترکی کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھے۔
ان زلزلوں نے ساری دنیا میں ایک کہرام سا مچادیا۔ ایک نظریہ یہ بھی پیش کیا جانے لگا ہے کہ دجالی قوتیں، موسم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگی ہیں جس کی تائید میں مختلف تاویلات پیش کی جانے لگی ہیں۔ اگرچہ اس آفت ناگہانی کے پس پردہ انسانی کارستانی ہونے کے بارے میں جو کچھ بھی دعوے کئے جارہے ہیں ان کی نفی سائنسی اداروں کی جانب سے شدت سے کی جانے لگی ہے اور اس کو سازشی نظریہ سازوں کا تخیل قرار دیا جارہا ہے مگر جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو یکلخت مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا چونکہ اس ترقی یافتہ دور میں کچھ بھی ممکن ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں اس کے ٹھوس شواہد بھی منظر عام پر آجائیں۔
دجالی قوتیں، شیطان کی مدد سے کی جانے والی سائنسی ایجادات کو اپنے مقاصدکی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہیں تاکہ دنیا میں دجال کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات ناقابل فہم ہوگی کہ کس طرح سائنسی ایجادات میں شیطان معاون ہوسکتا ہے مگر جب آپ مخصوص سائنس دانوں کے نام ایجادات کی فہرستوں پر نظر ڈالیں گے تو پتہ چلے گا کہ ایک انسان کو متعدد ایجادات کے لئے درکار تحقیق اور تجربات کرنے کے لئے اتنا وقت کب ملا ہوگا؟ چونکہ تحقیق کی اساس پر پہلا تجربہ ہی کامیاب ہوجائے ممکن نہیں اور اکثر تجربات کے دوران ہی کئی نقائص کا پتہ چلتا ہے اور پھر ان کا مداوا کرتے ہوئے حقیقی روپ دینے میں بسا اوقات برسوں لگ جاتے ہیں۔
اگرچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ زلزلوں کے بارے میں پیش قیاسی کرنا تقریباً ناممکن ہے مگر نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے ایک محقق فرینک ہوگربیٹس نے تین فروری کوٹوئٹ کرتے ہوئے پیش قیاسی کردی تھی کہ جلد یا بہ دیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے (جنوبی وسطی ترکی، اردن، شام اور لبنان) میں تباہی مچائے گا۔ اس ٹوئٹ کے صرف تین دن بعد اتنی ہی شدت کا زلزلہ بتائے گئے علاقہ میں آنے کے بعد یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ آیا زلزلوں کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے؟
فرینک ہوگربیٹس کے ادارہ سولار سسٹم جیومیٹری سروے نے 30؍جنوری کو یہ بھی پیش قیاسی کردی تھی کہ بنگلہ دیش، چین، پاکستان اور افغانستان کے متعدد علاقوں میں ارضیاتی سرگرمی میں زبردست ہلچل پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔اس سے یہ اندازہ کیا جانے لگا ہے کہ مشرقی ہند کی پٹی بھی زلزلوں کی زد میں آنے والی ہے۔ زلزلہ کے بعد ‘HAARP’ ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد ٹوئٹس کئے گئے۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی دعویٰ کیا جانے لگا کہ امریکی جہاز USS Nitze استنبول کے ساحل پر لنگر انداز ہوا اور ہارپ کا بٹن دبایا گیا۔
یہی نہیں بلکہ ان زلزلوں کو انسانی کارستانی سمجھنے والوں کا یہ بھی استدلال ہے کہ ترکی کے سرحدی علاقہ میں آنے والے اس قدر طاقتور زلزلے کے اثرات اسرائیل میں کیوں محسوس نہیں کئے گئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس ملک میں زلزلہ آئے اس کے اثرات پڑوسی ممالک تو کجا اسی ملک کے دوسرے حصوں میں مرتب ہوں۔ ان زلزلوں کو سازشی پہلو سے دیکھنے والوں کا یہ بھی استدلال ہے کہ بشمول اسرائیل چند ممالک نے زلزلوں سے دو دن قبل ہی اپنے سفارت خانے بند کرکے سفارتی ارکان کو واپس طلب کرلیا تھا کیونکہ انہیں پہلے ہی سے پتہ تھا کہ اب اس ملک کو زلزلہ کے ذریعہ نشانہ بنایا جانے والا ہے۔
یہی نہیں بلکہ زلزلوں سے قبل ترکی کے آسمان پر طلسماتی بادل اور عجیب روشنی دیکھی گئی۔ اگرچہ اب تک کسی بھی سائنسی ادارہ نے ان امکانات کی توثیق نہیں کی ہے بلکہ اس کی نفی ہی کی ہے اور جہاں تک مذکورہ امریکی جہاز کے لنگر انداز ہونے کی بات کہی جارہی ہے اس کے بارے میں یہ ادعا کیا گیا کہ وہ کارکرد حالت میں نہیں ہے۔ ایک اور اتفاق کی بات ہے کہ 6؍فبروری کی تاریخ کو ہی 2012 ء میں فلپائن میں، 2016 ء کو تائیوان میں اور 2023 ء کو ترکی میں زلزلے آتے ہیں۔ کیا یہ واقعی اتفاق ہوسکتا ہے؟
تلنگانہ میں حالیہ موسم بارش کے دوران ہونے والی تباہ کن بارش کے بارے میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بھی تبصرہ کیا تھا کہ اس کے پس پردہ مصنوعی موسمیاتی تبدیلیوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ان کا بڑا مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سال 2022ء کے اوآخر سے ہی طلسمی شخصیت بابا ونگا کے حوالہ سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا تھا کہ سال 2023 ء میں دنیا کے بیشتر حصوں میں زلزلوں سے بڑی تباہی آئے گی۔
بابا ونگا کی پیش گوئیوں کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ اس خاتون نے یہ بھی پیش قیاسی کی تھی کہ 2023 ء میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فلکیاتی واقعہ رونما ہوگا جس سے زمین کے مدار میں تبدیلی واقع ہوگی اور کرہ ارض پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ تبدیلی شمسی طوفان سمیت تابکاری میں زبردست اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سال کرہ ارض پر خلائی مخلوق کی آمد ہوگی اور وہ زمین پر دراندازی کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا موجب بنیں گے۔
اسی طرح کی کئی وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان زلزلوں کو سازشی پہلو کے تناظر میں دیکھا جانے لگا ہے اور ایک گوشہ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ترکی میں آئے طاقتور ترین زلزلے قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی کارستانی کا نتیجہ ہیں جو دجالی قوتوں کے ساری دنیا پر غالب آنے کے منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔ ترکی اور شام میں آئے زلزلوں کے بعد ایک بار پھر HAARP (High-frequency Active Auroral Research Program) پروگرام موضوع بحث بن گیا ہے اور یہ دعویٰ کیا جانے لگا ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ زلزلہ پیدا کیا گیا ہے۔
ہارپ کو اردو میں بلند ارتعاش سریع الاثر انوار قطبی تحقیقی پروگرام کہا جاسکتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پروجیکٹ فضائی کرہ روانیہ (کرہ ایونی) میں شمسی طوفانوں کے مطالعہ کے لئے گاکونہ، الاسکا کے قریب 1992ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ تاویل دی جانے لگی ہے کہ ترکی کو اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے پس پردہ سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ چونکہ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردغان ترکی کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کرنے کوشاں ہیں، جو معاہدہ لوزان کی میعاد کے 2023 ء میں بظاہر ختم ہوجانے کے بعد ترکی کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کوشاں ہیں۔
ہارپ ٹیکنالوجی کے بارے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ کا ایک خفیہ پروگرام ہے جس کو عالمی سطح پر کی جانے والی تنقیدوں کے بعد مسدود کردیا گیا ہے مگر محققین کے ایک طبقہ کا اب بھی یہ ماننا ہے کہ خفیہ طور پر اس پروجیکٹ کو جاری رکھا گیا ہے۔
ہارپ طاقتور اینٹیناؤں کے ایک نظام پر مشتمل ٹیکنالوجی ہے جو زمین کے کرہ ایونی میں مرضی کے موافق تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ اس کے ذریعہ ہلکے تعدد والی ارتعاش کے ذریعہ 1.7 گیگا واٹ توانائی کی شعاعیں زمین کے کرہ ایونی میں منتقل کی جاتی ہیں جو گرم اہتزاز میں تبدیل ہوکر اوپر اٹھتی ہیں اورہواؤں کے دباؤ اور رخ میں تبدیلی پیدا کرتے ہوئے موسم تبدیل کرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کے تحت جب توانائی کو ہزاروں واٹ سے بلین واٹ تک لے جایا جاتا ہے تو زمین کی فضاء کا بڑا حصہ منتشر ہوکر خلاء میں چلا جاتا ہے، جس کے بعد اس فضاء سے بالائے بنفشی شعاعیں زمین کی طرف لوٹ آتی ہیں جن سے زمین کی نچلی سطحوں کے مقناطیسی میدانوں میں زبردست ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں زمین کی نچلی پرتیں تہہ و بالا ہونے لگتی ہیں اور زلزلہ رونما ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس نظام کے تحت کرہ ایونی میں مصنوعی طور پر ارتعاش پیدا کرتے ہوئے ایک مخصوص سطح کا اہتزاز تیار کیا جاتا ہے تو آسمان پر عجیب قسم کی روشنیاں ظاہر ہوتی ہیں اور اس دوران کڑک دار گونج بھی پیدا ہوتی ہے جس کی آواز بموں کے پھٹنے جیسی ہوتی ہے۔
جہاں تک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس طرح کے زلزلے پیدا کرنے کا سوال ہے، کیا یہ ممکن ہے تو فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس امکان کو یکلخت مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا مگر ایسی کسی ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے کے ابھی تک کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں یہ سازش طشت از بام ہو۔
ترکی میں آئے زلزلے انسانی کارستانی ہونے کے جواز میں جہاں ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کئے جانے سے متعلق سوشل میڈیا پر زبردست دلائل پیش کئے جارہے ہیں، وہیں اس کے پس پردہ سیاسی محرکات کے کار فرما ہونے کا بھی خدشہ پیش کیا جارہا ہے۔ اگر یہ زلزلہ انسانی کارستانی نہ ہو تب بھی ترکی کی موجودہ برسراقتدار سیاسی طاقت کے بارے عالمی طاقتیں فکرمند ضرور دکھائی دیتی ہیں اور وہ موجودہ صدر طیب اردغان اور ان کے ہم خیال تمام داخلی قیادتوں کو ترکی میں بے اثر کرنے جتن کرنے لگی ہیں۔
اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ترکی کو داخلی مسائل میں الجھائے رکھنے کے لئے اس طرح کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تاکہ وہ ان مصائب سے نکل آنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھے اور اپنے عوام کو راحت پہنچانے عالمی امداد حاصل کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس طرح ترکی کی اعانت کرتے ہوئے اس کو اپنے عزائم سے روکا بھی جاسکتا ہے۔
ترکی کے خلاف عالمی سازش کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ میں جھانکنے کی ضرورت ہوگی۔ جنگ عظیم اول میں عالمی طاقتوں کے آگے خلافت عثمانیہ کی پسپائی اور خلافت کے خاتمہ کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی بیشتر مملکتیں، ترکی کے عروج کو پسند نہیں کرتیں اور وہ بھی دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر ترکی کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردئیے گئے تو مغربی استعماریت کے آلہ کار کمال الدین اتاترک نے ترکی کی آزادی اور ایک سیکولر مملکت کی بنیاد ڈالی۔
ترکی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اس نے ملک میں اسلام پر ایک اعتبار سے تحدیدات عائد کردیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اسلام کا نام لینے والوں کو یا تو قتل کرادیا یا پھر انہیں قید کردیا اور ملک میں بے حیائی کو خوب بڑھاوا دیا۔ طاغوتی قوتوں کی یہی کوشش رہی تھی کہ ترک سے اسلام کا نام و نشان مٹادیا جائے۔ اتاترک نے اسلام کو مٹانے کی کوششوں کے طور پر ترک زبان کے رسم الخط کو بھی بدل دیا اور عربی کے استعمال کو ختم کرکے رکھ دیا تھا اور شریعت کو ترک کرکے اپنے قوانین نافذ کئے تاکہ اسلامی مواد کے ماخذ کو ہی ختم کردیا جائے۔
اس کے باوجود ترک عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنے دلوں میں ایمان کی حرارت کو کم ہونے نہیں دیا اور وہ خاموش اور غیر محسوس طریقہ سے نئی نسل میں ایمان کی جڑوں کو پختہ کرتے چلے گئے جس کے نتیجہ میں اسلامی فکر کے حامل لوگوں نے سیاست میں قدم رکھنا شروع کرتے ہوئے عوام کا خط اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر عدلیہ اور فوج کی اکثریت مغرب زدہ اور اسلام بیزار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی پارٹی کے نجم الدین اربکان کی حکومت کو یہ کہتے ہوئے معزول کردیا گیا تھا کہ وہ ترکی کے سیکولر آئین کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ ترکی کی فوجی حکومت نے 1971ء میں ان کی پارٹی پر امتناع عائد کردیا مگر وہ ہمت نہیں ہارے اور ایک سے زائد مرتبہ ان کی پارٹی پر امتناع کے باوجود وہ ڈٹے رہے۔
اربکان کے فکری شاگرد موجودہ صدر طیب اردگان بھی ترکی کے ناقابل تسخیر قائد کے طور پر ابھرے اور عالمی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے لگے۔ ساتھ ہی انہوں نے ترک عوام کی قومیت کو جگایا اور انہیں پھر سے عالم اسلام کی قیادت کرنے پر ابھارا۔ ان کے عزائم کو دیکھتے ہوئے کئی عرب مملکتیں بھی ان کی دشمن ہوگئیں۔ انہوں نے خود کو ایک ایسے قائدکے طور پر پیش کیا جو طاغوت کے آگے جھکنے والا نہیں۔ طیب اردغان ساتھ ہی یہ اشارہ دینے لگے تھے کہ اب وہ عالمی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے اور ترکی کے داخلی معاملتوں میں خارجی مداخلتوں کو برداشت نہیں کریں گے ۔
وہ فلسطین کے کاز کی کھل کر تائید کرنے لگے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات بھی کئے جس سے مغربی طاقتوں کو لگنے لگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ترکی کو بھی ایک جوہری طاقت بنانا چاہتے ہیں اور ترکی کی آزادی کے لئے کئے گئے معاہدہ لوزان کے تحت عائد کردہ تحدیدات اور شرائط کی مزید تعمیل کرنے سے انکار کردیں گے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ معاہدہ لوزان کے 100 برس کی تکمیل کے بعد ترکی پر عائد تحدیدات ازخود برخاست ہوجائیں گی اور ترکی اپنے قدرتی وسائل کا بھر پور استعمال کرنے کا اہل ہوجائے گا جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے چونکہ یہ معاہدہ میعادی نہیں ہے بلکہ دوامی ہے۔ ہاں البتہ دیگر ممالک کی طرح ترکی فوجی اور اقتصادی اعتبار سے بہت زیادہ طاقت ور بن جاتا ہے اور اگر وہ اس معاہدہ کی مزید پاسداری کرنے سے انکار کردے تو عالمی طاقتیں اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ دجالی قوتوں کو اسی بات کا ڈر ہے کہ ترکی ایسا کرنے کے مؤقف میں آسکتا ہے۔
رجب طیب اردغان نے اپنی تقاریر کے ذریعہ کچھ ایسے ہی اشارے دئیے تھے جس سے یہ لگنے لگا تھا کہ وہ معاہدہ لوزان کے 100 برس کی تکمیل پر اس کے وجوب سے انکار کردیں گے۔ اسی لئے ترکی کے خلاف مختلف نوعیت کی سازشیں کی جانے لگیں۔ رجب طیب اردغان کا صفایا کردینے کی غرض سے ترکی کے ہی جلا وطن صوفی پیشواء فتح اللہ غولن اور چند عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ 2016ء میں فوجی بغاوت کردی گئی مگر ترک عوام سڑکوں پر اتر آتے ہوئے فوج سے متصادم ہوگئی اور اس بغاوت کو ناکام بنادیا ۔انہوں نے ملک میں طرز حکمرانی کو تبدیل کرواتے ہوئے استصواب عامہ کروایا اور صدارتی نظام نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس نئے نظام کے تحت وہ ملک کے صدر بن گئے۔
انہوں نے ترکی کو مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ سے بھی آزاد کروادیا اور اب وہ یوروپی یونین کے معاملوں میں بھی کھل کر اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ جب یہ دیکھ لیا گیا کہ رجب طیب اردغان کی اپنے عوام پر زبردست گرفت ہے اور انہیں بے دخل کرنا آسان نہیں ہے تو ترکی کی معیشت کو تباہ کرنے کی سازشیں کی جانے لگیں۔ اس تناظر میں لوگ حالیہ زلزلوں کو ایک سازش تصور کرتے ہیں تو کچھ عجب نہیں۔ بعید نہیں کہ ایسا ہی کچھ ہو مگر طاغوتی طاقتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کتنے ہی منصوبے بنائیں اور کتنی ہی تباہی کا سامان کیوں نہ کریں مگر وہی ہوگا جو خالق کائنات کو منظور ہوگا۔