سیاستمضامین

اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات

انتہا پسندوں کی کامیابی۔ فلسطینیوں کی نئی آزمائش وجہِ نزاع لازمی فوجی بھرتی کا قانون بنا

مسعود ابدالی

تین سال کے دوران اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات یکم نومبر کو ہوئے۔ باربار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019ء میں ہوا۔ وجہِ نزاع لازمی فوجی بھرتی کا قانون بنا، اور اس معاملے میں وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے شریکِ اقتدار اتحادیوں کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہوگئی۔ یہ تنازع کیا ہے؟ اس کی تفصیل ہم اس سے پہلے ایک نشست میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اسرائیل میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون نافذ ہے جس کے تحت ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8ماہ، اور لڑکی کو 2سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ لازمی فوجی خدمت کے قانون سے قدامت پسند حریدی (Heridi) فرقہ یا Ultra-Orthodox Jews مستثنیٰ ہیں۔ حریدی خود کو توریت اور احکاماتِ ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود (فقہ) کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں: زمین پر بیٹھنا۔ حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کے لیے مدارس سے 32مہینے کی غیر حاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔
بی بی کی اتحادی اسرائیل مادر وطن وطن پارٹی (Yisrael Beitinu)کے سربراہ لائیبرمین کو حریدیوں کے لیے فوجی خدمت سے استثنیٰ پر شدید اعتراض تھا، ان کے خیال میں ایک فرقے سے خصوصی برتائو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انھوں نے 2019ء کے آغاز میں فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کروا دیا۔ اس ”جسارت“ پر حریدی ربائی (علما) سخت مشتعل ہوگئے اور ان کی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور توریت پارٹی نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمایت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ بی بی کو اُس وقت پارلیمان کے 73 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں شاس اور توریت جماعت کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔ ان دو جماعتوں کے بغیر 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے متحارب حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن دونوں ہی اپنی بات پراَڑے رہے، چنانچہ وزیراعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی، اور 9 اپریل 2019ء کو نئے انتخابات ہوئے۔
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جناب لائیبرمین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کے لیے وہ صرف اُسی جماعت کی حمایت کریں گے جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ اس ضمن میں حریدیوں کا مؤقف بھی بالکل بے لچک تھا، اور توریت جماعت کے سربراہ موسیٰ گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کسی قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
نئے انتخابات کے نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چنانچہ صدر نے نوزائیدہ اسمبلی تحلیل کردی اور 17 ستمبر کو نئے انتخابات ہوئے۔
نئے انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھِلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020ء کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&W اتحاد کو شراکتِ اقتدار کا جھانسہ دے کر مخلوط حکومت بنالی۔ اس دوران نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں تیزی آگئی۔ بربنائے عہدہ بی بی کو پیشی اور پوچھ گچھ سے استثنیٰ حاصل رہا۔
شراکتِ اقتدار معاہدے کے تحت نومبر 2020ء میں B&Wکے سربراہ کو وزیراعظم بننا تھا۔ بی بی کی کوششوں سے ان کے سیکولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیراعظم کا استثنیٰ مزید مؤثر بنانے کے لیے قانون سازی سے بھی انکار کردیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیراعظم کو اصالتاً(in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کردی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاً حاضری سے استثنیٰ وزیراعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت، عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کورونا کا بہانہ بناکر بی بی ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
وزیراعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&W سے شراکتِ اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انھوں نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگر استثنیٰ کے قانون میں ترمیم کرکے وزیراعظم کے ساتھ سابق وزیراعظم کو بھی تحفظ دے کر اسے ناقابلِ دست اندازیِ عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کردیں گے۔ آخرِکار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ گئی۔
چوتھے انتخابات گزشتہ برس 23 مارچ کو منعقد ہوئے۔ اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی اور صورت حال کچھ یہ ہوئی کہ بی بی کے لیکڈ اتحاد اور ان کے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52اور ان کے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51تھا۔ یمینیہ (دایاں بازو) پارٹی کو 7نشستیں ملیں۔ مول تول اور سودے بازی کے بعد یمینیہ نے بی بی مخالف اتحاد سے معاہدہ کرلیا جس کے سربراہ Yesh Atidیا مستقبل پارٹی کے یار لیپڈ (Yair Lepid)تھے ۔ یمینیہ کے ساتھ آجانے کے بعد بھی حکومت سازی کے لیے 61کا عدد پورا نہ ہوا اور ایوانِ وزیراعظم کی کنجی 10نشستوں والے عرب اتحاد کے پاس آگئی۔ یہ اتحاد دو دھڑوں پر مشتمل تھا۔ جوائنٹ لسٹ جس کے پاس 6 نشستیں تھیں، اور 4نشستوں والی اخوانی فکر کی حامل رعم۔ عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والا غدار کہلاتا، اس لیے بی بی اور ان کے مخالف مسٹر لیپڈ عربوں کے سائے سے بھی دور رہے۔ لیکن اقتدار کی لیلیٰ کا عشق قوم پرستی پر غالب آگیا اور یارلیپڈ نے رعم سے اتحاد کرکے حکومت بنالی۔ طے یہ پایا کہ آدھی مدت یمینیہ کے نفتالی بینیٹ وزیراعظم ہوں گے اور اگست 2023ء میں شمعِ اقتدار یار لیپڈ کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ جوڑ توڑ کے بعد رعم کو ملاکر بھان متی کے اس کنبے کو 120 کے ایوان میں 61ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ بھان متی اس لیے کہ اتحاد میں ربائی (ملا) مخالف اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، بائیں بازو کی لیبر اور دائیں بازو کی یمینیہ کے ساتھ عربوں کی رعم بھی شامل تھی۔
اتحاد میں دراڑ کا آغاز اس سال اپریل میں Passoverکے تہوار سے ہوا۔ یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزارکر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کردیا تھا۔ یہ واقعہ عبورِ عظیم (Passover)کہلاتا ہے۔
اس تہوار پر خصوصی عبادت کے ساتھ لذتِ کام و دہن کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہسپتالوں کے مریضوں اور مسافروں میں کھانے تقسیم ہوتے ہیں۔ یہودیوں کے یہاں کھانے پینے کے ضابطے اور پابندیاں خاصی سخت ہیں۔ اس تہوار پر حمص (Chametz)بہت مقبول ہے جو چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ فلسطینی حمص تو آٹے کو پانی میں گوندھ کر براہِ راست بنایا جاتا ہے، لیکن اسرائیلی، ذائقے کو خمیری بنانے کے لیے آٹے کو گوندھ کر ایک دن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے دن اس آٹے کی روٹیاں بنالی جاتی ہیں۔ یہودی علما کے نزدیک خمیر ایک نشہ آور چیز ہے جو ان کی شریعت میں حرام ہے۔ روایت کے مطابق مصر میں حمص روٹی بنانے کا یہی طریقہ تھا لیکن جب Passoverکے لیےحضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر یہودیوں نے ہجرت کی تو جلدی کی وجہ سے وہ آٹے کو خمیر نہ کرسکے اور تازہ آٹے کی روٹیاں بنالیں۔ علما نے اس کی یہ تعبیر پیش کی کہ حضرت موسیٰ کی اطاعت کے علاوہ نشے سے پرہیز بھی اللہ کی رضا کا سبب بنا جس کی وجہ سے ان پر وہ رحمت نازل ہوئی۔ اسی بنا پر Passoverکی تقریبات میں یہودی حمص استعمال نہیں کرتے۔ اس بار حکومت کی جانب سے تہوار کے موقع پر جو کھانا تقسیم کیا گیا اس میں حمص بھی شامل تھا۔
قدامت پسندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ عبادت گاہوں میں خواتین اور مردوں کا علیحدہ انتظام مناسب نہیں جس کی وجہ سے دیوارِ گریہ سمیت یہودی معبدوں میں اختلاطِ مرد و زن قابلِ اعتراض حد پر آگیا ہے۔
یمینیہ کی ایک رہنما محترمہ ایدت سلیمان کو حمص کی تقسیم اور عبادت گاہوں میں اختلاطِ مردوزن پر حلقہ انتخاب کی جانب سے سخت دبائو کا سامنا تھا اور معاملہ طنز و تنقید سے راہ چلتے فحش گالیوں اور ہلکے پھلکے دھول دھپے تک پہنچ گیا۔اسکول جاتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جارہا تھا۔ گھر کے آگے اشتعال انگیز مظاہرے کے ساتھ ان کے شوہر سے دفتر میں بدتمیزی کی گئی۔
اسی کے ساتھ ایک اور تنازع بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ دورے میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینیوں کے علاقے کو دریائے اردن کا مغربی کنارہ کہہ دیا، یہودیوں کے یہاں یہ علاقہ یہودا والسامرہ (Ezor Yehuda VeShomron) کہلاتا ہے۔ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ مغربی کنارہ کہہ کر نیفتالی صاحب نے اسے مقبوضہ عرب علاقہ تسلیم کرلیا ہے جبکہ یہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔
محترمہ ایدت پر دبائو اتنا بڑھا کہ انھوں نے وزیراعظم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ چنانچہ 120کے ایوان میں وزیراعظم کے ووٹ 60ہوگئے، جبکہ اکثریت کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم ٹیکنیکل نکتے نے جناب نیفتالی بینیٹ کو بچالیا۔ ضابطے کے مطابق اعتماد کے ووٹ کا حکم جاری کرنا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے اور اسپیکر ان کی پارٹی کا ہے۔ حزبِ اختلاف صرف عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم سے جان چھڑا سکتی ہے جس کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ محترمہ ایدت نے اعلان کیا تھا کہ اگر اعتماد کا مرحلہ آیا تو وہ حکومت کی حمایت نہیں کریں گی، لیکن عدم اعتماد کی تحریک میں وہ غیر جانب دار رہیں گی۔
کچھ دن بعد مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام پر ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کا خیال ہے کہ نئی بستیوں کے قیام سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا، لہٰذا یہ سلسلہ معطل کردیا جائے۔ اس بات پر یمینیہ کے ایک اور قدامت پسند رکن پارلیمان نیر اوبیک(Nir Orbach) سخت مشتعل ہوگئے اور فرمایا کہ اگر نئی آبادیوں کا فیصلہ معطل ہوا تو حکومت کو خداحافظ۔ نیر صاحب کی اس بات پر لیبر پارٹی کی سربراہ موراو میکائیلی برہم ہوگئیں اور کہا کہ نیفتالی جی فیصلہ کرلیں، اگر وہ نیر کے ناز اٹھانا چاہتے ہیں تو حکومت کو سرخ سلام۔ صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی نے دھمکی دے دی کہ کنیسہ کے اگلے اجلاس میں وہ عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں گے۔ ہزیمت سے بچنے کیلئے نیفتالی بینیٹ اور یار لیپڈ نےتحلیلِ پارلیمان کی قرارداد پیش کردی۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ اسرائیلی رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت واضح ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ پانچ انتخابات میں کوئی بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔
اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ رجواڑوں پر مشتمل ہے:
٭ بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا لیکڈ اتحاد
٭ یہودی ربائی
٭ عرب مسلم اتحاد
٭قوم پرست
٭ بایاں بازو اور لبرل قوتیں
عرب اتحاد کی حیثیت ہندوستان کے دلتوں کی سی ہے کہ کوئی جماعت انھیں منہ نہیں لگاتی۔ اسرائیل میں 1967ء کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ”پناہ گزین“ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حق دار نہیں، لیکن قیام اسرائیل یعنی 1948ء کے وقت جو عرب یروشلم اور اس کے مضافات میں آباد تھے انھیں اسرائیلی شہری تسلیم کرلیا گیا۔ اسرائیل کی کُل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی اور دروز ہیں۔
حسبِ سابق اس بار بھی 39جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلمان اور عربوں کا حداش اتحاد، سیکولر عرب تنظیم بلد اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی نے بھی قسمت آزمائی کی۔ گزشتہ انتخابات میں حداش نے 5، رعم نے 4، اور بلد نے ایک نشست حاصل کی تھی۔
حالیہ انتخابات کی انتہائی اہم بات مسلمان اور عرب ووٹروں کی مایوسی تھی۔ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار عرب شریکِ اقتدار ہوئے تھے لیکن معاملہ یہ تھا کہ
ذکرِ حسین پر وہی پابندیاں رہیں
ذاکر حسین راشٹر پتی بن گئے تو کیا
فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک میں مزید شدت آگئی۔ غزہ پر بمباری معمول کے مطابق رہی۔ اسرائیلی بستیوں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ عربوں کی بے دلی کا عملی مظاہرہ انتخاب کے دن ہوا جب ان کی آبادیوں میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کے مقابلے میں انتہاپسند عناصر کا جوش و خروش مثالی تھا جس کے نتیجے میں 70.61فیصد ووٹ ڈالے گئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسرائیل میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لوگ صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگاتے ہیں اور مجموعی ووٹوں میں ہر جماعت کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسے نشستیں عطا کردی جاتی ہیں۔ جو جماعت مجموعی ووٹوں کے 3.5فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے اسے دوڑ سے باہر کردیا جاتا ہے۔
نتائج کے مطابق بی بی کا لیکڈ اتحاد 32 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا، اور یار لیپڈ کی آزاد خیال مستقبل پارٹی نے 24 نشستیں حاصل کیں۔ دینِ صہیون یا Religious Zionist نے 14 نشستیں حاصل کیں اور تیسرے نمبر پر رہی۔ ان میں سے 6 نشستیں اس کی اتحادی عزمِ یہود (Otzma Yehudit)کی ہیں۔ حریدیوں کی شاس پارٹی نے 11 اور جماعت توریت نے 7 نشستیں حاصل کیں۔ شاس ”پاسبانِ توریت“ کا عبرانی مخفف ہے۔ سابق وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی یمینیہ اور عربوں کی بلد کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی شرط پوری نہ کرسکیں۔ عرب اتحاد حداش اور اسلامی خیال کی رعم نے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔
انتہا پسند مذہبی جماعتیں سب سے بڑا پارلیمانی گروپ بن کر ابھری ہیں جن کا مجموعی حجم 32 ہے، اور اتنی ہی نشستیں انتہاپسند بی بی نے حاصل کی ہیں۔ گویا پارلیمان میں بی بی اور ان کے مذہبی اتحادیوں کی تعداد 62 ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 61 کی ضرورت ہے۔
نئی حکومت میں مذہبی جماعتیں بی بی کی برابر کی شراکت دار ہوں گی۔ عزم یہود کے سربراہ اتامار بن گوو (Itmar Ben- Givr) پر دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے کئی مقدمات قائم ہوچکے ہیں۔ انھوں نے سابق اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائن(Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائن نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے 29 مسلمانوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کُشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔
شاس، جماعتِ توریت، عزمِ یہود اور دینِ صہیون چاروں مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق اور یہاں آباد فلسطینیوں کو مصر اور اردن دھکیل دینے کے حامی ہیں۔
انتہاپسندوں کی کامیابی سے جہاں فلسطینی حقارت آمیز سلوک اور قتل عام میں شدت آنے کا خدشہ محسوس کررہے ہیں، وہیں عام اسرائیلی بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا ردعمل عام اسرائیلیوں کو بھگتنا ہوگا۔ لبرل و آزاد خیال عناصر خاص طور سے خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی بی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ملائوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہوگا۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی بہت دن چلنے والی نہیں۔