سیاستمضامین

انسانیت کی خدمت غیر بھی کرتے ہیں تو مسلمان

محمد مصطفی علی سروری

یہ 21؍ مارچ 2023ء کی بات ہے دو پہر کا وقت تھا چندراوتی کی عمر 70 برس ہے۔ وہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑا سا آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئی تھی۔ چندراوتی کا تعلق بنگلور سے تقریباً دس کیلومیٹر دور واقع علاقے منڈارا سے ہے اور وہ منڈارا میں ریلوے ٹریک کے قریب رہتی ہے۔ جو لوگ ریلوے ٹریک کے قریب رہتے ہیں ان کو ریلوے کے ٹریک پر آنے جانے والی ہر ٹرین کے متعلق معلومات رہتی ہیں۔ خیر چندراوتی ابھی صحیح سے لیٹی بھی نہیں کہ اچانک اس کو زوردار آواز نے چونکا دیا۔ حسب معمول تجسس کے مارے چندراوتی اپنے گھر سے باہر نکلی اور گھر کے قریب ریلوے ٹریک کی سمت دیکھنے گئی کہ آخر کیا ہوا، کس چیز کی آواز آئی۔ قریب 150 میٹر دور چندراوتی نے دیکھا کہ ایک بہت بڑاجھاڑ ریلوے ٹریک پر گر گیا ہے جس سے پورا ٹریک چھپ گیا۔
چندراوتی کو فوراً خیال آیا کہ اس وقت تو دوپہر کے دو بج کر دس منٹ ہوئے اور صرف دس منٹ بعد اس ٹریک پر ماٹسے گاندھا ایکسپریس جو منگلور سے ممبئی کو جاتی ہے آنے والی ہے۔ یہ سونچ کر چندراوتی پریشان ہوگئی کہ اگر ٹرین کو روکا نہیں گیا تو بڑا حادثہ ہوسکتا ہے۔
چندرا وتی کی عمر 70 برس تو تھی ساتھ ہی اس کا دل کا آپریشن بھی ہوچکا تھا۔ یعنی وہ قلب کی مریض تھی۔ لیکن چندراوتی نے ہمت نہیں ہاری اور طئے کیا کہ وہ 10 منٹ بعد آنے والی ٹرین کو حادثہ کاشکار بننے نہیں دے گی۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر گئی۔ گھر کے باہر رسی پر پوترے کا ایک ٹریک پینٹ سوکھانے کے لیے ڈالا گیا تھا جو کہ لال رنگ کا تھا۔ بس چندراوتی نے لال رنگ کے ٹریک کو ہاتھ میں لیا اور پھر ریلوے ٹریک کے ساتھ دوڑنے لگی۔ وہ جتنا تیز ہوسکے اتنا تیز دوڑ رہی تھی اور اس طرف جارہی تھی جدھر سے ٹرین آنے والی ہے۔ دوپہر کی دھوپ، پائوں میں چپل نہیں اور ہاتھ میں لال رنگ کا کپڑا لیے وہ اس وقت تک دوڑتی رہی جب اس کو ٹرین نظر آنے لگی اور پھر ریلوے ٹریک کے بازو کھڑی ہوکر یہ بوڑھی خاتون اپنے ہاتھ کے لال کپڑوں کو ہوا میں ہلانے لگی اور ریلوے کے ڈرائیو کو ہاتھ سے رُکنے کا اشارہ کرنے لگی۔
بوڑھی عورت کے لال کپڑے پر جب ریلوے کے لوکو پائلٹ کی نظر پڑی تو اس نے اشارہ سمجھ لیا کہ آگے خطرہ ہے۔ پھر اس نے ٹرین کو بریک لگایا۔ تھوڑی دور جاکر ٹرین رک گئی تو 70 سال کی چندراوتی نے ڈرائیور کو بتلایا کہ آگے ٹریک پر ایک بڑا جھاڑ گر گیا ہے۔ ریلوے حکام کو اطلاع دی گئی۔ ریلوے کا عملہ حرکت میں آگیا اور فوراً ٹریک پر پہنچ کر درخت کو ہٹانے کا کام شروع کیا اور یوں ایک گھنٹے بعد جب 3:30 منٹ پر ریلوے ٹریک پوری صاف ہوگیا تب ٹرین آگے کے سفر کے لیے چل پڑی اور ایک بوڑھی خاتون کی چوکسی سے ریلوے کا ایک بڑا حادثہ ٹل گیا۔ اخبار نیو انڈین ایکسپریس 5؍ اپریل 2023 کو اس حوالے سے بنگلور سے اپنے نمائندے کی ایک رپورٹ شائع کی۔ اخبار نے لکھا کہ 4؍ اپریل 2023 کو ریلوے حکام نے چندراوتی اور اس کے افراد خاندان کو انسانیت کی اس خدمت پر تہنیت پیش کی اور خاتون کی خدمات کو سراہا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ چندراوتی کا شوہر بھی گھر کے قریب ہی ریلوے ٹریک پر گرجانے سے موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ یہ ٹریک چندراوتی کے گھر سے اتنا قریب ہے کہ چندراوتی کا بیٹا بھی اپنی گاڑی ریلوے ٹریک کی دوسری سمت پارک کر کے گھر آتا ہے۔ جس دن ریلوے ٹریک پر جھاڑ گرنے کا واقعہ ہوا اس دن چندراوتی اکیلے گھر پر تھی۔ جب کہ اس کا بیٹا کام پر گیا تھا اور پوترا کالج میں تھا۔ چندراوتی نہ تو ریلوے کی ملازم ہے اور نہ ہی اس کا کوئی رشتہ دار ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ حالانکہ ایسے ہی ریلوے ٹریک کے حادثہ میں اس کے شوہر کی جان چلی گئی تھی۔ لیکن چندرا وتی نے دوسروں کی جان بچانے کے لیے کسی چیز کی پرواہ نہ کی اور بالآخر ایک بڑا حادثہ ٹالنے میں کامیاب ہوگئی۔
قارئین چندراوتی نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دوسرے کی جان کے بارے میں سونچا اور انسانیت کا ثبوت دیا۔ نہ اپنی عمر کا لحاظ کیا اور نہ یہ سونچ کر پیچھے ہٹ گئی کہ میں تو دل کی مریض ہوں۔ میرا تو آپریشن ہوا ہے۔ یعنی دنیا میں انسانیت کی خدمت کرنے والے ہر مذہب اور علاقے کے لوگ ملیں گے۔ ایسے میں مسلمانوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے ہر لمحہ ہر لحظہ بلکہ ہر پل صف اول کے سپاہی بننا ہوگا۔
یہ تو انسانیت کی خدمت کی بات ہے۔ ایسے ہی اب ایک اوررپورٹ ملاحظہ کیجئے جو کہ چین کے صوبے Sichuan کے شہر Chegdu سے سامنے آئی ہے۔ چینی سوشیل میڈیا میں گذشتہ دنوں ایک خاتون کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی ہے۔ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون گلابی رنگ کا لباس پہنے جس کے پائوں میں ربڑ کے جوتے ہیں اور جس کے گلے میں چولہے میں کام کرتے وقت پہنا جانے والا Apron ہے۔
چین کی سوشیل میڈیا ویب سائٹ Weibo پر یکم؍ اپریل 2023 کو یہ ویڈیو پوسٹ کی گئی۔ اب اس ویڈیو کی خاص بات کیا ہے وہ بھی جان لیجئے۔ یوں تو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ہزاروں لوگ اپنے گلے میں ڈوری ڈالے ہوئے کپڑا (Apron) پہنتے ہیں۔ اور ہزاروں لوگ دنیا بھر میں ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن اس وائرل ویڈیو کی خاص بات جو تھی وہ خاتون کی سواری تھی۔ جی ہاں قارئین چولہے میں کام کرنے والوں کا سا لباس پہنے یہ خاتون ایک مہنگی ترین گاڑی میں سوار ہوکر ریسٹورنٹ پہنچتی ہے۔ اور اس مہنگی کار میں سوار ہوکر ریسٹورنٹ کو جانے والی خاتون اپنی اسی سواری کی وجہ سے تعجب اور توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
سب لوگ اس بات پر متحیر تھے کہ آخر اتنی مہنگی پر تعیش کار میں سفر کرنے والی خاتون ہوٹلوں میں کام کرنے والوں سا لباس کیوں پہنے ہوئے ہے۔ اگر وہ ہوٹل میں کام کرتی ہے تو اس کے پاس اتنی مہنگی کار کیسے آگئی۔ اگر وہ مہنگی کار کی مالک ہے تو پھر ہوٹل میں کیوں کام کر رہی ہے۔
قارئین آگے بڑھنے سے پہلے اس مہنگی کار کا تعارف کروادینا چاہتا ہوں جس کے سبب چین کی خاتون سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ اس کار کا نام Bentleyہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں اس کار کی ابتدائی قیمت ساڑھے تین کروڑ سے شروع ہوکر 6 کروڑ سے تجاوز کرجاتی ہے۔ یعنی ایک مہنگی گاڑی سے سواری کر کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرنے کے لیے خاتون کا آنا تعجب کی بات تھی۔
سوشیل میڈیا پر وائرل اس خاتون کے متعلق 6؍ اپریل 2023 کو ایک ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں مذکورہ خاتون کے متعلق بتلایا گیا کہ وہ ایک مالدار ترین خاتون ہیں اور گھر پر بور ہونے سے بچنے کے لیے ریسٹورنٹ میں شوقیہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ چینی اخبارات China Times اور Oriental Daily کی اطلاعات کے مطابق چینی خاتون کا تعلق مالدار گھرانے سے ہے لیکن وہ وقت گذاری کے لیے ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام کر رہی ہیں۔ ریسٹورنٹ کے مالک نے بھی تصدیق کی کہ مہنگی گاڑی میں سوار خاتون جو وہاں برتن دھونے کا کام کر رہی ہیں دراصل امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ چینی اخبار کے مطابق خاتون نے خود بھی اعتراف کیا کہ اس کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے ہے۔ لیکن وہ گھر پر بور ہونے سے بچنے کے بجائے ایک ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام کر رہی ہیں اور جس دن وہ برتن دھونے کا کام نہیں کرتی اس دن بہت بے چینی محسوس کرتی ہیں۔
قارئین دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ خاتون جس مہنگی Bentley گاڑی میں روز ریسٹورنٹ آتی ہیں اس کو چلانے والی کوئی اور نہیں بلکہ اسی خاتون کی بیٹی ہے جو اپنی ماں کے شوق کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہوئے ہر روز ماں کو ریسٹورنٹ لاکر چھوڑتی اور لے جاتی ہے۔ خاتون کی لڑکی کہتی ہے کہ میری ماں اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے گذارنا چاہتی ہیں اس لیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
قارئین یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ کروڑوں کی گاڑی میں سفر کرنے والی دولت مند خاتون ایک ریسٹورنٹ میں برتن دھوکر اپنے لیے سکون تلاش کرلیتی ہے اور ہمارے معاشرے میں تو پورا معاملہ ہی الٹا ہے۔ لوگوں کے ہاں اتنی دولت اور حیثیت نہیں ہے جتنی دولت کی وہ نمائش کرنا چاہتے ہیں۔
حالانکہ فضول خرچی سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن قرضوں کے دلدل میں پھنس کر ہم اپنے آپ کو امیر سے امیر تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور امیری کی چکر میں ہم اور ہمارے نوجوان کس طرف جارہے ہیں ذرا غور کریں۔
حیدرآباد سٹی پولیس کی جانب سے جاری کردہ ان پریس نوٹس پر اگر ہم غور کریں تو ہمارے حالات کھل کر واضح ہوجاتے ہیں۔
10؍ اپریل 2023 کو حیدرآباد سٹی پولیس کے کمشنر ٹاسک فورس ایسٹ زون کی جانب سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا جس میں چھ مسلم کم عمر نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع دی گئی اور ان کے پاس سے 3 بائک بھی ضبط کی گئیں۔ تفصیلات میں بتلایا گیا کہ سعید آباد، ملک پیٹ اور چنچل گوڑہ میں عوامی مقامات اور سڑکوں پر یہ نوجوانوں کی ٹولی گاڑیوں کی ریسنگ اور کرتب کرنے کی شکایات موصول ہوئی جس پر کارروائی کر کے پولیس نے مذکورہ 6 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ پھر ان کے والدین اور سرپرستوں کو طلب کر کے ان کی کونسلنگ کی گئی۔ یہ تو بچوں کی وہ شرارتیں تھیں جو وہ کر رہے تھے اور والدین ان سے لا علم تھے۔ پولیس نے اب والدین کے علم میں یہ باتیں لاکر انہیں اپنے بچوں کے حرکات پر نظر رکھنے کے لیے توجہ دلوائی۔
کیا یہ سٹی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو سڑک پر کرتب بازی کرنے اور پھر اس کا ویڈیو بناکر سوشیل میڈیا پر ڈال کر لائک بٹورنے سے روکیں یا بحیثیت سرپرست والدین کی بھی خود ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔
10؍ اپریل 2023ء کو ہی حیدرآباد سٹی پولیس کے ٹاسک فورس عملے نے 23 سال کے ایک مسلم نوجوان ساکن کاٹے دھن کو گرفتار کر کے اس کے قبضے سے 183گرام چرس، 340 گرام گانجہ جن کی مالیت 4,57,000 روپئے بتلائی گئی ہے برآمد کرلیا۔ مہاراشٹرا کا ساکن یہ نوجوان اب حیدرآباد میں مقیم ہے اور ڈرگس سپلائی کرنے کا کام کر رہا ہے۔ خاص بات تو یہ کہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی اب مسلم نوجوانوں کو غیر قانونی اور غیر شرعی کاموں کے کرنے سے روک نہیں پارہا ہے۔
ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں پریس ریلیز ہیں جو محکمہ پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کیے جاتے ہیں جس میں مسلمانوں کو ہر طرح کے جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا جارہا ہے۔ کیا ہمارے نوجوانوں میں جلد سے جلد امیر بننے کی چکر میں غیر قانونی طریقے کار اختیار کرنے کا رجحان ختم کرنے کی ضرورت نہیں؟ ذرا سونچئے، غور کیجئے گا جن تک خطیب کی نصیحت نہ پہنچے جن پر مذہبی جماعتوں کا اثر نہ ہو ایسے نوجوانوں کی اصلاح کس کی ذمہ داری ہے۔ کیا یہ والدین کا فرض نہیں کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں۔ وہ مالدار حضرات جو اپنی دولت کی نمائش کرتے ہیں بے جا اصراف کرتے ہیں اور نوجوانوں کو امیر بننے کی بالراست ترغیب دلاتے ہیں اور جلد سے جلد امیر بننے کی چکر میں ہمارے نوجوان جرائم کی دنیا میں غیر قانونی کاموں کو اختیار کر رہے ہیں۔ جس مذہب میں امیروں سے کہا گیا کہ آم کھاکر چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب پڑوسی کو احساس کمتری نہ ہو وہاں پر سماج کے ایسے امیروں سے بھی پوچھ ہوگی۔ اللہ رب العزت ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ مبارک کی برکتوں سے ہمیں بھی فیضیاب کرے۔ آمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com

a3w
a3w