حیدرآباد

اکبر اویسی کو 40 دن بعد اور راجہ سنگھ کو فوری ضمانت!

پولیس عہدیداروں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ فوجداری دفعات کے تحت گرفتاری کا طریقہ کار کیا اختیار کیا جانا چاہئے۔ پولیس نے کہیں جان بوجھ کر اس طرح کی کوتاہی تو نہیں کی تاکہ راجہ سنگھ کی رہائی کی سبیل نکل آئے۔

حیدرآباد: بی جے پی کے معطل شدہ رکن اسمبلی راجہ سنگھ کی صبح گرفتاری اور شام کو عدالت سے گھر واپسی نے سب کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ راجہ سنگھ کے سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو کو پیش کرنے کے کچھ ہی دیر بعد شہر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

 اور پولیس نے مسلم نوجوانوں کے احتجاج پر صبر کا مظاہرہ کیا تھا اور دن کی ابتدائی ساعتوں میں راجہ سنگھ کو گرفتار کرتے ہوئے جس مستعدی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی ستائش کی جانے لگی تھی۔

 سبھی کو امید بندھی تھی کہ راجہ سنگھ کو جب عدالت میں پیش کیا جائے گا تو انہیں عدالتی تحویل میں دے دیا جائے گا اور شام میں جب انہیں نامپلی کریمنل کورٹ میں پیش کیا گیا تو یہ اطلاعات باہرآئیں کہ عدالت نے انہیں 14 دنوں کے لئے عدالتی تحویل میں دے دیا اور انہیں چنچل گوڑہ جیل لے جایا جارہا ہے ۔

مگر کچھ دیر بعدیہ حقیقت سامنے آئی کہ 14 ویں ایڈیشنل میٹرو پولیٹن سیشن جج نے ارنیش کمار بمقابلہ ریاست بہار میں سپریم کورٹ کے فوجداری مقدمات میں ملزمین کی گرفتاری کے لئے جاری کردہ رہنمایانہ خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں عدالتی تحویل میں بھیجنے سے انکار کردیا۔

 راجہ سنگھ کی رہائی سے احتجاجی نوجوانوں میں مایوسی دوڑ گئی اوریہ پوچھا جانے لگا کہ جب مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات پر مجلسی رکن اسمبلی اکبر الدین اویسی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انہیں عدالتی تحویل میں دے دیا گیا تھا اور ان کی ضمانت پر رہائی 40 دنوں بعد ہی عمل میں آئی مگر راجہ سنگھ کی فوری رہائی کیونکر ممکن ہوئی، اسی کے ساتھ پولیس او ر پبلک پراسکیوٹر کے رویوں پر شکوک و شبہات کئے جانے لگے۔

یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا ہے کہ آیا پولیس عہدیداروں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ فوجداری دفعات کے تحت گرفتاری کا طریقہ کار کیا اختیار کیا جانا چاہئے۔ پولیس نے کہیں جان بوجھ کر اس طرح کی کوتاہی تو نہیں کی تاکہ راجہ سنگھ کی رہائی کی سبیل نکل آئے۔

یہ استفسار کیا جارہا ہے کہ جب مختلف پولیس اسٹیشنوں میں راجہ سنگھ کے خلاف شکایات کا اندراج ہوا تو وہاں کے ایس ایچ اوز نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی۔ اگر متعلقہ پولیس عہدیدار نے جان بوجھ کر یہ خامی رکھی تو پبلک پراسیکیوٹر نے اس کی اصلاح کی کوشش کیوں نہیں کی۔ کیوں عدالت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ راجہ سنگھ کی فی الفور رہائی سے شہر کی پرامن فضاء مکدر ہوسکتی ہے اورلاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے؟

 یہ بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں نے اتنے حساس مسئلہ سے روگردانی کیوں اختیار کی اور اپنے ماتحتین کی رہنمائی سے اجتناب کیوں کیا؟