حیدرآباد

نوجوانوں! تمہاری فدائیت کو سلام مگر….

ہم ان نوجوانوں کے جذبہ کی قدر کرتے ہیں مگر ان نوجوانوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کچھ کرنے سے قبل اس کے نتائج و عواقب پر بھی غور کریں چونکہ جذبات میں کئے جانے والے فیصلوں میں کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔

حیدرآباد: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس یقینا تمام مسلمانوں کے لئے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ ایک مسلمان اپنی توہین برداشت کرلے گا مگر وہ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں معمولی سی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔

محسن انسانیت ؐکی شان میں بی جے پی کی ترجمان نپور شرما کے توہین آمیز ریمارکس پر مسلمانان ہند کے دل رنجیدہ و ملال ہی تھے کہ بی جے پی کے شریر رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ نے کل رات جو حرکت کی اس نے مسلمانان حیدرآباد کو بے چین کردیا۔

جوں ہی سوشل میڈیا پر راجہ سنگھ کی بکواس وائرل ہوئی مسلمانان حیدرآباد نے رات کے اندھیرے سے ہی احتجاج شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج رات دیر گئے تک بھی جاری رہا۔

 یقینا مسلم نوجوانوں کی اس بیداری کا ہی نتیجہ تھا اور جگہ جگہ احتجاج نے پولیس مشنری کو فوری حرکت میں آتے ہوئے راجہ سنگھ کو گرفتار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ورنہ ماضی میں اس بدطینت کے خلاف 40 سے زائد مقدمات درج ہیں مگر اس کی  شائد ہی دو چار مقدمات میں گرفتاری عمل میں آئی ہوگی۔

مسلم نوجوانوں کے جگہ جگہ احتجاج اور مختلف پولیس اسٹیشنوں میں 70 سے زائد شکایات کے اندراج اور 24 گھنٹوں تک مسلسل احتجاج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے مگر صحیح رہنمائی سے عاری ان نوجوانوں نے اپنی فدائیت اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ جگہوں پر اپنا آپا کھودیا

 اور جذبات میں بہہ کر پڑوس میں لگائے جانے والے کچھ ایسے نعرے بھی لگائے جس سے اغیار کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ مسلم نوجوان، دہشت گردی پر آمادہ ہیں۔ جانبدار میڈیا نے ایسے نوجوانوں کے کلپس کو پیش کرتے ہوئے اصل موضوع سے لوگوں کو بھٹکانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

مسلم نوجوانوں کی یہ بیداری عمائدین ملت کے لئے بھی دعوت فکر دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف اگر وہ آواز نہیں اٹھائیں گے اور اپنی بزدلی کو مصلحت کا لبادہ اڑھانے کی کوشش کریں گے تو وہ قیادت کی رہنمائی کے بغیر ہی اپنی دلی کیفیت کو یوں ہی دبا نہ لیں گے بلکہ وہ اپنے سے جو ممکن ہوگا وہ کر گزریں گے۔

 مسلم معاشرہ کا ایک طبقہ جو دور اندیش نہیں ہے وہ  نوجوانوں کی اس نئی بیداری پر شادماں ہیں اور کوشاں ہیں کہ وہ ان نوجوانوں کے جذبات کو مزید برانگیختہ کرتے ہوئے ان کے لیڈر بن بیٹھیں۔ نیم دانشور اور حکومت کے زر خرید لوگوں کی جانب سے اپنی مقصد براری کے لئے ان نوجوانوں کے استحصال کرنے کے احتمالات بڑھ جاتے ہیں۔

ہمارے نوجوان اگر بغیر رہنمائی کے یوں ہی اپنی دانست کے مطابق کارروائیاں کرنے لگیں گے تو یہ نوجوان آگے چل کر ایسا کچھ کربیٹھیں گے جس کا متحمل بھارتی مسلم معاشرہ نہ ہوگا اور ہمیں اس کا اجتماعی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ عمائدین ملت کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ آج جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ ماضی میں ان کی اختیار کردہ بے حسی کو عیاں کرتا ہے۔

 ہمارے عمائدین خاص کر ملی تنظیموں سے وابستگان میں نہ جانے کہاں سے اور کس وجہ سے بزدلی جگہ کرگئی کہ وہ کئی حساس مسائل پر اپنا کردار نبھانے کی بجائے منظر سے غائب رہنے کو ہی ترجیح دینے لگے۔ یہی وجہ رہی کہ مسلم نوجوانوں نے جو حساس مسائل پر ملی قیادتوں کے جمود کو دیکھ کر خود ہی کچھ کرنے کی ٹھان لی۔

 ہم ان نوجوانوں کے جذبہ کی قدر کرتے ہیں مگر ان نوجوانوں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کچھ کرنے سے قبل اس کے نتائج و عواقب پر بھی غور کریں چونکہ جذبات میں کئے جانے والے فیصلوں میں کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔

ملی مسائل پر آپ کا اقدام، آپ کی ساری برادری کے اقدام پر محمول کیا جاتا ہے اس لئے ہمیں ایک جامع لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ملی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ سنجیدگی سے غور کریں اور ملت کی اجتماعی حکمت عملی طئے کرنے کے لئے آپسی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔