حیدرآباد

تلنگانہ کے قرض میں مزید اضافہ، مقروض ریاستوں کی فہرست میں نمایاں مقام

مالیاتی سال2023-24 میں تلنگانہ کا بقایہ عوامی قرض3.57 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچنے کے قریب ہے جس میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

حیدرآباد: مالیاتی سال2023-24 میں تلنگانہ کا بقایہ عوامی قرض3.57 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچنے کے قریب ہے جس میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں
بجٹ میں تلنگانہ نظرانداز‘شہر میں زیر وفلکسیز آویزاں
توہین آمیز ریمارکس پر کے سی آر کو نوٹس
یوم عاشورہ کے لیے نقائص سے پاک انتظامات: کو پلا ایشور
باپ اور بیٹے کا جیل جانا یقینی: وینکٹ ریڈی
قائد اپوزیشن کے سی آر کا دورہ اضلاع، خاتون کے بیٹے کی شادی کیلئے5لاکھ روپے کی امداد دینے کا اعلان

اس بقایہ میں عوامی شعبہ کے اداروں سے حاصل کردہ قرض 4.33 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سال 2023-24 کے تخمینہ بجٹ میں قرض کا بوجھ 3,57,059 کروڑ روپے تک پہنچ جائے گا جبکہ گذشتہ سال 2022-23 میں یہ قرض 3.22 لاکھ کروڑ روپے تھا۔

دریں اثنا ریاستی گھریلو ترقی (جی ایس ڈی پی) کی شرح فیصد کے تحت اس سال قرض کا بوجھ23.8 فیصد تک گر جائے گا جبکہ گزشتہ مالی سال2022-23 میں قرض کا بوجھ 24.3 فیصد رہا اس کے باوجود قرض کا یہ بوجھ جی ایس ڈی پی (گھریلو شرح نمو) کے25فیصد کی حد سے کم ہی رہے گا۔

رواں مالیاتی سال سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوگا۔گذشتہ سال کے بہ نسبت اس مالیاتی سال سود کے طور پر22,407 کروڑ روپے ادا کئے جائیں گے جبکہ گذشتہ سال18,911 کروڑ روپے سود ادا کیا گیا تھا۔

تلنگانہ کو قرض کے دلدل میں ڈھکیلنے سے متعلق ریاست کی اپوزیشن کی سخت تنقید سے قطع نظر حکمراں جماعت بی آر ایس کا ماننا ہے کہ وہ عوامی قرض، فیسکل ریسپانسی بلیٹی اینڈ بجٹ مینجمنٹ (ایف آر بی ایم) کے حد میں ہی رکھے ہوئے ہیں۔ سال 2020-21 میں تلنگانہ کا قرض جی ایس ڈی پی کا25فیصد تھا۔

اگرچیکہ سال 2021-22 میں قرض2,83,452 کروڑ تک پہنچ گیا مگر یہ قرض جی ایس ڈی پی کی شرح24.7 فیصد سے کم تھا۔ سال 2022-23 میں نظر ثانی تخمینہ کے مطابق قرض بڑھ کر3,22,993 کروڑ ہوگیا جو جی ایس ڈی پی کا 24.3 فیصد رہا۔

حکومتی قرض کے بڑے جز میں کھلے بازار سے حاصل کردہ قرض شامل ہیں جو سال2022-23 میں بڑھ کر3,10,363 کروڑ روپے ہوگیا جبکہ یہ قرض سال 2020-21 میں 2,03,199 کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر سال2021-22 میں 2,42,445 کروڑ اور سال2022-23 میں 2,03,199 کروڑ روپے ہوگیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بجٹ میں دکھائے گئے اعدادوشمار سے بھی کہیں زیادہ حقیقی قرض ہے۔

مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے کہا کہ گذشتہ ہفتہ ریاستی حکومت کا قرض بڑھ کر8لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچیکہ ریاست کا قرض 3.12 لاکھ کروڑ روپے ہے مگر پی ایس یوز، کارپوریشن بینکس، این بی ایف سیز، نبارڈ، پاور فینانس کارپوریشن اور آر بی آئی سے حاصل کردہ قرض بڑھ کر مجموعی طور پر8لاکھ کروڑ روپے ہوجائے گا۔

بی جے پی قائد نے الزام عائد کیا کہ بی آر ایس حکومت نے تلنگانہ کو قرض کے دلدل میں ڈھکیل دیا ہے۔ انہوں الزام عائد کیا کہ ریاستی حکومت، ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے اور چھوٹے کنٹراکٹروں کے بلز منظور کرنے سے قاصر ہے۔ مرکزی وزارت فینانس کی جانب سے 2 فروری2023 کو جاری کردہ اطلاعات کے مطابق حکومت تلنگانہ اور پبلک سیکٹر انٹر پرینرس کا جملہ قرض4.33 لاکھ کروڑ تک پہنچ گیا۔

وزارت فینانس کا کہنا ہے کہ جملہ 4.33 لاکھ کروڑ کے قرض میں ریاستی حکومت کا قرض2.83 لاکھ کروڑ ہے جبکہ انٹر پرینرس / کمرشیل بینکس اداروں سے حاصل کردہ قرض1.31 لاکھ کروڑ اور نبارڈ سے حاصل کردہ19431 کروڑ کا قرض بھی شامل ہے۔ 2014 میں تشکیل تلنگانہ کے وقت ریاست کا قرض 75,577 کروڑ روپے تھا مگر ان 8برسوں میں حکومت نے 2.07 لاکھ کروڑ روپے کا قرض حاصل کیا۔

وزارت فینانس نے یہ بات بتائی تاہم تلنگانہ، ان5بڑی ریاستوں کی فہرست کے آخری مقام پر ہے۔ میں شامل ہے جن کا قرض مسلسل گذشتہ تین مالیاتی سال میں جی ایس ڈی پی کی شرح سے کم ہے۔مرکزی مملکتی وزیر فینانس پنکج چودھری نے لوک سبھا کو بتایا کہ سال 2014-15 سے سال2021-22 تک تلنگانہ کا مجموعی قرض2.83 لاکھ کروڑرہے۔ 2014 میں تشکیل تلنگانہ کے بعد سے سال2021-22 تک حکومت کی جانب سے حاصل کئے جانے والے قرض کی شرح میں 4گنا کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔

تشکیل تلنگانہ کے پہلے سال حکومت نے مختلف ذرائع سے 8,121 کروڑ روپے کا قرض حاصل کیا تھا۔ ہر سال حکومت کے قرض کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بڑھتے قرض کیلئے دونوں ریاستی اور مرکزی حکومتیں ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہی ہیں۔

گذشتہ سال ستمبر میں ریاستی وزیر فینانس ٹی ہریش راؤ نے دعویٰ کیا تھا کہ زیرالتواء فنڈس، امداد اور معاوضہ کی شکل میں مرکز،1,05,812 کروڑ روپے تلنگانہ کو واجب الدا ہے۔ اگر مرکز، اصول اور سفارشات کے مطابق ادائیگی کرتا تو تلنگانہ اپنے قرض3.29 لاکھ کروڑ میں سے ایک تہائی کا قرض ادا کردیتا۔ اگر مرکزی حکومت آج کی تاریخ تک ان فنڈس کو جاری کرتی ہے تو ہمیں مزید قرض حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔