مذہب

جمعہ کی نماز میں سجدۂ سہو

یوں تو سجدہ سہو کے سلسلہ میں جمعہ کا بھی یہی حکم ہے جو عام نماز کا ہے ؛ لیکن چوںکہ جمعہ و عیدین میں لوگوں کا ازدہام ہوتا ہے اور ایسے موقع پر اگر امام سجدہ سہو کرے تو امام سے دور کھڑے ہونے والے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں ،

سوال:- جمعہ کی نماز میں اگر امام صاحب سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس پر سجدہ سہو لازم آتا ہو تو کیا سجدہ کیا جائے گا یا بھیڑ کی وجہ سے شرعاً رخصت دی جائے گی ۔(حافظ محمد حسین ، گلبرگہ)

جواب :- یوں تو سجدہ سہو کے سلسلہ میں جمعہ کا بھی یہی حکم ہے جو عام نماز کا ہے ؛ لیکن چوںکہ جمعہ و عیدین میں لوگوں کا ازدہام ہوتا ہے اور ایسے موقع پر اگر امام سجدہ سہو کرے تو امام سے دور کھڑے ہونے والے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں ،

جیسے بجائے سجدہ کے رُکوع میں چلے جائیں ؛ اس لئے جمعہ اور عیدین کی جماعت میں سہو کو قابل عفو مانا گیا ہے اور فقہاء نے لکھا ہے کہ اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا :

والسھو فی صلاۃ العید والجمعۃ والمکتوبۃ والمتطوع سواء ، والمختار عند المتأخرین عدمہ فی الأولیین لدفع الفتنۃ کما فی الجمعۃ ۔ ( درمختار : ۱؍۱۱۶ ، نیز دیکھئے : فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۱۲۸)

فقہاء کی اس صراحت سے معلوم ہوا کہ اُصولی طورپر تو ہر نماز میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے ؛ البتہ ازدہام کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے ؛ لہٰذا اگر جمعہ کی نماز میں اتنی کم تعداد ہو، جتنی تعداد عام نمازوں میں ہوا کرتی ہے ، تو اس میں سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا ؛

کیوںکہ اس صورت میں وہ اندیشہ نہیں رہا ، جس کی وجہ سے سجدہ سہوکو ترک کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، اسی طرح جمعہ و عیدین کے علاوہ کسی اور نماز میں اتنا ازدہام ہوجائے کہ سجدہ سہو کرنے کی صورت میں غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہو ، جیساکہ بعض دفعہ رمضان المبارک کی طاق راتوں میں ہوجاتی ہے تو اس میں بھی سجدہ سہو کو ترک کرنے کی اجازت ہے ، واللہ اعلم ۔