طنز و مزاحمضامین

اتوار کی اڈلی

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

آپ اور ہم نے آندھرا کی اڈلی دوسہ کا نام تو سنا ہے اور اکثر و بیشتر یہ ہمارے ناشتے کا حصہ ہیں لیکن یہ اتوار کی اڈلی کیا ہے؟ تو سنئے جناب یہ آج کے دور کی حقیقت ہے کہ کیا شہر کیا گاﺅں اب اتوار کا آغاز اسی اڈلی دوسہ کے ناشتے سے ہورہا ہے۔ تمام گھروں کی خواتین نے شائد یہ مشترکہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ہفتے کے چھ دن تو کچھ نہ کچھ پکوان کریں گی لیکن اتوار کی صبح کچھ پکوان نہیں ہوگا اور گھر کے مرد حضرات چاہے شوہر ہوں یا بیٹے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قریبی اڈلی کی دکان جائیں اور گھر کے سب افراد کے لیے اڈلی خرید کر لائیں۔ اور ظلم یہ ہے کہ ہر محلے میں کچھ خاص دکانیں اڈلی کی ہوتی ہیں جہاں کا مزہ اچھا ہوتا ہے تو لوگ جوق در جوق اس دکان پر ہلا بول دیتے ہیں اور اڈلی خرید کر لانا گھر کے افراد کے لیے کسی جنگ جیت کر آنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہمیں تعجب ہوتا تھا یہ سن کر کہ پرانے شہر کے مظلوم مرد ہاتھ میں اسٹیل کا کیان پکڑے صبح کے وقت باہر نکلا کرتے تھے اور کچھ دیر بعد وہ قریب کی پائے کی ہوٹل جاکر پائے کا گرم گرم شوربہ اور نان کی روٹیاں لے کر گھر آتے تھے اور گھر کے لوگ اسی شوربہ نان سے ناشتہ کرتے تھے تو ہمیں غصہ آتا تھا کہ کیا پرانے شہر کی خواتین اس قدر سست و کاہل ہوگئیں کہ صبح کا ناشتہ بھی نہیں بنا سکتیں۔ منگل ہاٹ کے علاقے میں سنا ہے کہ پائے کے شوربے کی ہوٹل اس قدر مشہور ہے کہ صبح چار بجے سے وہاں خواہش مندان شوربا کی لائن لگ جاتی ہے اور صبح کچھ گھنٹے بعد ہی شوربا پائے ختم ہوجاتے ہیں۔ تو بات چل رہی تھی اتوار کی اڈلی کی۔ اب یہ ہماری زندگی کا معمول ہوگیا ہے کہ اکثر و بیشتر ناشتہ اسی اڈلی سے ہورہا ہے۔ کچھ خواہش مند لوگ روزانہ کی زندگی سے بیزار ماحول کی تبدیلی کی خاطر اتوار کی صبح واکنگ کو نکلتے ہیں تو واپسی میں اڈلی کھا کر آتے ہیں، کچھ بوڑھوں کی واکر اسو سی ایشن ہیں جو ہر ہفتے ایک کی باری کے اعتبار سے اتوار یا روزانہ صبح اپنا ناشتہ اڈلی سے کرتے ہیں۔ ظلم تو ہم نے یہ دیکھا کہ مظلوم باپ اپنے دو تین بچوں کو اڈلی کی دکان لے کر آتے ہیں بچوں کو وہیں اڈلی کھلاتے ہیں خود بھی کھاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ باپ تینوں بچوں کے خالی ٹفن کے ڈبے کھول کر دکان والے سے کہہ رہا ہے کہ اس میںبھی اڈلی ڈال دے، ہم نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو بچوں کے باپ نے کہا کہ یہ دوپہر کا ٹفن ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے گھروں میں کیسے زندگی کا رخ بدل رہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہوٹل کا یا باہر کا کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا اب یہ زندگی کا معمول بن گیا ہے۔بس میں سفر کرتی خاتون ملازماﺅں کو بھی ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ صبح آٹھ بجے بس میں بیٹھتے ہی پرس میں سے ٹفن کا باکس کھولتی ہیں اور بیٹھے بیٹھے اڈلی کھانے لگ جاتی ہیں تو ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسی مشینی زندگی ہے کہ عورت کو نہ گھر میں پکوان کی فرصت نہ سکھ چین سے بیٹھ کر ناشتہ کرنے کی فرصت ہے۔ حیدرآباد میں ملازمت کے لیے دوسرے شہروں سے آئے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی کثیر تعداد ہے جو صبح ہائی ٹیک سٹی جاتے ہوئے راستے میں موجود اڈلی کی دکانوں سے کھڑے کھڑے ناشتہ کرتے نظر آتے ہیں، اس لیے اڈلی کا کاروبار بھی زوروں پر ہے اکثر اڈلی فروخت کرنے والے گھر سے اڈلی بنا کر بڑے ڈبے میں رکھ کر راستوں کے کنارے اپنی گاڑی لگا دیتے ہیں اور ایک دو گھنٹے میں اچھا خاصا کاروبار کر لیتے ہیں۔ اڈلی کا مزہ اہل دکن کو آندھرا والوں نے بتایا تھا جب کہ گزشتہ بیس تیس سال میں یہ کاروبار شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں عام ہوگیا۔ گزشتہ تیس سال قبل اڈلی کا کوئی چلن عام نہیں تھا ،ہوٹلوں میں صبح ناشتے میں پوری یا روٹی ملا کرتی تھی۔ حیدرآباد میں چونکہ دن اور رات کا فرق مٹ گیا ہے اور زندگی چوبیس گھنٹے رواں دواں ہے تو رات کی شفٹ سے آنے والوں کے لیے بھی رات میں اڈلی دوسے کی بنڈیاں ہر طرف دستیاب ہیں اور یہ کاروبار خوب چل رہا ہے، دوسے کئی قسم کے بن رہے ہیں اور شوق سے کھائے بھی جارہے ہیں۔ بات اڈلی اور باہر کے کھانے کی چلی تو یہ بھی اب ہماری زندگی کی حقیقت بن گئی ہے کہ چھوٹی موٹی دعوتوں کے لیے پہلے گھر میں باضابطہ پکوان گھر کی عورتیں مل کر کرتی تھیں یا باورچی سے پکوان کرایا جاتا تھا اور پکوان میں بگھارا کھانا دالچہ قورما اور پھلی گوشت کا سالن اس کے ساتھ بریانی کے چاول کا زردہ بنایا جاتا تھا جس کا مزہ پرانے دور کے لوگوں کو آج بھی یاد ہے لیکن اب دن بدل گئے ہیں تیس تا پچاس آدمی کی دعوت ہو تو فوری ہوٹل کو بریانی کی ہنڈی کا آرڈر دیا جاتا ہے اور شام میں ہنڈی لا کر مہمانوں کو ہوٹل کی بریانی کھلا دی جاتی ہے۔ ان سب باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ گھروں میں صاف ستھرا گھریلو پکوان نہ کرنے سے ہماری زندگی میں ہوٹل کے کھانے شامل ہوتے جارہے ہیں۔ آن لائن کھانے منگوانے کا رواج بھی اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہوٹل والے پریشان ہیں کہ وہ کس حد تک لوگوں کے آرڈر کی تکمیل کریں۔ حیدرآباد جو ایک زمانے تک اپنے مغلائی اور روایتی پکوانوں کے لیے مشہور تھا، اب بازاری ہوٹلوں کے کھانوں کے لیے مشہور ہوتا جارہا ہے اور آندھرا والوں نے جو اڈلی ہمیں کھلائی تھی وہ اب اس قدر ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے کہ کوئی بھی اتوار اڈلی کے ناشتے کے بغیر نہیں گزرتا ۔ یاد آتا ہے ہمیں وہ زمانہ جب گھروں میں ناشتے میں کھچڑی کھٹا قیمہ مرکل پاپڑ بڑے شوق سے بنا یا جاتا تھا۔ گھر کی عورتیں اگر پکوان کی طرف راغب نہ ہوں تو مرد ہی بہ طور احتجاج گھروں میں پکوان شروع کریں اور اتوار کی اڈلی اور اڈلی کے حصول کے لیے لمبی لائن سے چھٹکارا حاصل کریں۔