مضامین

حیدرآباد اور کتب خانے

حیدرآباد ریاست کے ہر امیرو جاگیردار کے پاس ایک چھوٹا موٹا کتب خانہ ہوا کرتا تھا۔ جب میں نے چومحلہ پیالیس میں ایک کتب خانے کا ذکر پڑھا تو یاد آیا کہ مہاراجہ کشن پرشاد کے علاوہ راجہ شیام راج بہادر کا بھی کتب خانہ تھا ، جو پرانے شہر میں بہت مشہور تھے ۔

اودیش رانی

حیدرآباد ریاست کے ہر امیرو جاگیردار کے پاس ایک چھوٹا موٹا کتب خانہ ہوا کرتا تھا۔ جب میں نے چومحلہ پیالیس میں ایک کتب خانے کا ذکر پڑھا تو یاد آیا کہ مہاراجہ کشن پرشاد کے علاوہ راجہ شیام راج بہادر کا بھی کتب خانہ تھا ، جو پرانے شہر میں بہت مشہور تھے ۔1952ء میں ایک مسلم صاحب کا کتب خانہ پاکستان منتقل ہوگیا۔کائستھوں کا قبیلہ صدفیصد خواندہ تھا، اس لیے ہر گھر میں ایک کتب خانہ حسب حیثیت ہوا کرتا تھا۔

آزادی کے بعد جہاں بہت سی تبدیلیاں آئیں وہیں کتب خانوں پر بھی بجلی گری۔ لوگوں نے ان کو بچانے کی بہت کم کوشش کی ۔ میرے والد نے کتب خانہ تحریک کے روح رواں ڈاکٹر رنگناتھم کے ساتھ مل کر کچھ کتب خانے بچانے کی کوشش کی ۔ ان میں مہاراجہ کا کتب خانہ بھی تھا مگر افسوس یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ چوری ہوگیا ۔ پھر شیام راج بہادر کا کتب خانہ اور اطراف کے نوابوں اور جاگیرداروں کے بچے کچے کتب خانوں میں رکھا گیا ۔ پہلے تو یہ ہمارے گھر ہی میں رہے پھر ان کو ایک مکان مل گیا ۔ وہ اب بھارت گن وردھک سمستھا کہلاتا ہے ۔

یہ نام دراصل ان حضرات کا دیا ہوا ہے جو اے آر پی Air Raid Protectionحوض پر بیٹھ کر اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے اور اسی حوض کو بنیاد بنا کر کتب خانہ تیار ہوا ، اس میں بہت سے لوگ تھے جنہوں نے ساتھ دیا اور دامے درمے سخنے مدد بھی کی مگر افسوس دوسری نسل نے ساتھ نہیں دیا،اس کے باوجود شکر ہے کتب خانہ بچا ہوا ہے ۔اسی تحریک سے حیدرآباد میں لوکل لائبریری اتھاریٹی کا قیام عمل میں آیا اور شہر میں کئی جگہ لائبریریاں کھولی گئیں ۔ نامپلی اور بیلہ چندولال کی شاخیںچوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھیں تاکہ ایسے طلباء جن کو سہولت نہیں ہے وہ فائدہ اٹھائیں اور اس سے طلباء نے فائدہ بھی اٹھایا۔ یہاں کے کئی طلباء ڈاکٹر ، انجینئر اور آئی اے ایس بنے اور وہ شکر گزار بھی ہیں ۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ فسادات میںلوگوں نے ہر چیز کو نقصان پہنچایا مگر لائبریریوں کی حفاظت کی۔

لوکل لائبریری اتھاریٹی دراصل ہمارے ٹیکس کے پیسوں پر چلتی ہے ، کبھی ا س کی 140سے زیادہ شاخیں تھیں ، اب تو صرف ایک دو دکھائی دیتی ہیں ۔اس میں ایک کتب خانہ بچوں کے لیے بھی تھا اور اس کا محل و وقوع بہت ہی خوبصورت تھا ، لائبریری ٹینک بینڈ پر بنے ایک پویلین میں تھی ۔ قریب دو ہزار کتابیں مختلف زبانوں یعنی اردو ، ہندی ، تلگو ، مراٹھی اور انگریزی میں بچوں کا ادب ہی اس کتب خانے کی زینت تھا۔خدا لالچ کو غارت کرے ، اس کی ایک خاتون لائبریرین نے یہاں کی سبھی چیزیں دھیرے دھیرے غائب کردیں اور بعد میں خود بھی غائب ہوگئیں اور بچے اس نعمت سے محروم ہوگئے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں مدرسوں میں بھی کتب خانے ہوا کرتے تھے۔ ان میں ناول، افسانے کے علاوہ دیگرموضوعات پر کتابیں ہوتی تھیں لیکن کتب خانے کی رونق دھیرے دھیرے مدھم پڑ گئی ، بجٹ بند ہوگئے اور عہدہ داروں نے بھی اس پر توجہ نہیں دی ۔ حالانکہ اس کی ضرورت بھی اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ کھیل کود کی پھر اسپورٹس بھی سرکاری مدارس سے ختم ہوگئے ، خانگی مدارس آئے تو ایک نئی تکنیک کمپیوٹر کی آئی ۔ بچوں کو جتنے بھی پراجکٹ دیے جاتے ہیں وہ انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جاتے ہیں ۔چنانچہ بچے کتابوں سے دورہورہے ہیں ، اگر حال یہی رہا تو ایک دن ہم صرف کمپیوٹر کی زبان ہی جان پائیں گے اور زندگی ’’ڈاٹ کام‘‘ ہوجائے گی۔

شاید یہی سب سوچ کر کندن باغ بیگم پیٹ کی رہنے والی ایک پیرا میڈیکل کم عمر خاتون نے اپنے گھر میں بچوں کے کتب خانے کا آغاز کیا ہے ۔ اس کتب خانے کی دیکھ بھال ان کے اپنے بچے کررہے ہیں ۔ خوبصورت سے گھر کے کمرے کو ہی کتب خانے کی شکل دیدی گئی ہے ۔اگرچہ کہ یہ بچوں کا کتب خانہ صرف ایک مخصوص محلے کے لیے ہے کیوں کہ بچے جو دو دور تک بسوں میں مدرسے جاکر تھک جاتے ہیں ،اس کے بعد کمپیوٹر گیم کھیلتے ہیں جو ان کی آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ جب کہ کتب خانے میں کتب کے صفحے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے اور نہ ہی اس کے کوئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اگر ہر محلے میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کتب خانے بچوں کے لیے کھولے جائیں تو سماج پر ایک بہت بڑا احسان ہوگا کیوں کہ آج ہمارے شہر اور ملک میں جو جرائم بڑھ رہے ہیں ، اس کی ایک وجہ کمپیوٹر اور ٹی وی بھی ہے ۔ کیونکہ بچے وہ باتیں دیکھتے ہیں ،جو ان کی عمر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں، جب کہ کتاب بہت محفوظ ہے ۔ بچوں کے ادیبوں نے ان کی عمروں کا لحاظ کرتے ہوئے لکھا ہے جب کہ ٹی وی پر اس بات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔

کتابوں کا اکٹھا کرنا مشکل نہیں ہوگا، بہت سے گھروں میں بچوں کی کتابیں خریدی جاتی ہیں ، ان سے کتابیں مستعمار لی جاسکتی ہیں ۔ اہل خیر حضرات بچوں کے رسالے خریدنے کے لیے مدد دے سکتے ہیں ۔ بچے انٹر نٹ کیفے میں بیٹھ کر کیا دیکھتے ہیں کیا کرتے ہیں کوئی بھی نہیں جانتا۔ چنانچہ بچہ سب دیکھتاہے جو اسے نہیں دیکھنا چاہیے ، اسے سلیقے سے سمجھایا جاسکتا ہے ۔ آج بڑھتے جرائم کی روک تھام ضروری ہے، اس کے لیے ہمیں بچوں کی تربیت کے طور طریقے بدلنے چاہیے ۔ ان کو موجودہ معاشرے کی اچھائیاں اور برائیاں دونوں کو بتانا چاہیے تاکہ وہ اپنا رستہ بہتر طریقے سے منتخب کرسکیں۔ کتابوں کے ذریعے عمدہ سفرنامے ، سوانح حیات کے علاوہ پریوں کی کہانیاں بھی بچوں کو سنانی چاہئیں۔

کتب خانے قائم ہو جائیں تو ہم بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے مختلف موضوعات پر مقابلے منعقد کرسکتے ہیں اور ہمارے وظیفہ یاب اساتذہ مختلف زبانوں میں کہانیاں سنا کر بچوں میں ایک مثبت رجحان پیدا کرسکتے ہیں ۔ ہم یقینا بہت جلد اور تیزی سے ایسا نہیں کرسکتے مگر دھیرے دھیرے کندن باغ کی اس خاتون کی تقلید کرتے ہوئے بچوں کے چھوٹے چھوٹے کتب خانے قائم کریں اور ماضی کی یاد تازہ کریں۔
٭٭٭