سوشیل میڈیامضامین

وہ شرارتیں، جو آج کے بچے نہیں جانتے…

آج کل کے بچے عام طورپر ہوٹلوں میں جاتے ہیں ، ہمارے زمانے میں نہ تو ریستوراں تھے نہ ہی ہوٹل ، ہم تولوگو ں کے ٹفن باکس پر اکتفا کرتے تھے۔کالج میں ایک لیڈیز روم تھا جہاں ایک خاتون نگراں کار تھیں جنہیں ہم ’’ دروغہ زنداں‘‘ کہتے تھے ۔

اودیش رانی

پروفیسر ڈاکٹر اشرف رفیع صاحبہ میری ہم جماعت رہ چکی ہیں ، ان کے ساتھ یوں تو دو سال گزارے یعنی ایم اے میں ساتھ رہے اور ریل سے سفر بھی ساتھ کیا کرتے تھے۔اچانک انہوں نے فرمائش کردی کہ کالم میں کیوں نہ ان شرارتوں کا ذکر کیا جائے جو ہم یا ہمارے ہم جماعت طلباء یا پھر دوسرے طلباء کیا کرتے تھے کیوں کہ یہ شرارتیں معصوم ہوا کرتی تھیں اور زندگی سے بھرپور، آج کی تیز رفتار زندگی کی طرح تکلیف دہ نہیں تھیں …

ریل کا سفر اگرچہ کہ صرف بیس منٹ کا ہوتا تھا مگر یہ سفر میری زندگی کے لیے کئی سفروں سے زیادہ دلچسپ ہوتا تھا ۔ شمس آباد سے بلارم تک صبح 9بجے چلنے والی لوکل ٹرین میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء اور ملازمین ہوتے تھے جبکہ 8:20پر چلنے والی گاڑی میں ریلوے ملازمین کی تعداد زیادہ ہوتی اور نو بجے کی ٹرین عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء سے بھری ہوتی تھی ۔ شاید 90فیصد سے زیادہ طلباء اور طالبات بغیر کسی ٹکٹ کے ہوتی تھیں ۔ بی اے سال اول سے لے کر ایم اے کے آخری سال تک ایک ٹکٹ چیکر تھے جن کا نام کچھ سوامی تھا مگر ان کے ڈریس پر جو بیاج لگا ہوا تھا اس کا نمبر تھا 303 ، یہ خطرناک نمبر کہلاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں Ak 47تو تھی نہیں 303بندوق ہی مشہور تھی ۔ سوامی جب بھی ڈبے میں داخل ہوتے ، ایک پاس سارے لڑکیوں میں گھوم جاتا تھا ۔

ایک بار انہوں نے طے کرلیا کہ لڑکیوں کو پکڑ ہی لیں گے ۔ اس لیے پہلی بار پاس دیکھ کر اسے ہاتھ میں پکڑ لیا اور دوسری لڑکی سے پاس مانگنے لگے ، اب پاس کہاں سے لاتے ۔ فوراً تین لڑکیاں اچانک اپنا پیر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور لگیں کراہنے ۔ سوامی جی کے ہاتھ سے پاس چھوٹ گیا ، جسے پہلی والی لڑکی نے اٹھا لیا ۔ اب سوامی جی کا غصہ آنکھوں سے اور مسکراہٹ ہونٹوں سے جھلکنے لگی۔اسی بیچ ریل رک گئی اور سوامی جی اتر گئے ۔ پھر ریل کے چھوٹے ڈبے کی تلاش کرلی گئی اور اسے صرف جامعہ کی طالبات کے لیے مخصوص کرلیا گیا اور جب سوامی جی ٹکٹ چیکنگ کرنے آتے تو فوراً کہہ دیتے کہ یہ زنانہ ڈبہ ہے ، بیچارے خاموش چلے جاتے ۔ اب تو آرٹس کالج پر ایک اسٹیشن بن گیاہے مگر ہمارے زمانے میں یہ صرف ہالٹ کہلاتا تھا کیونکہ یہاں صرف دو منٹ کے لیے ہی گاڑی رکتی تھی۔ریل سے اترنے کے بعد کالج تک پہنچنے کے لیے پیدل چلناپڑتا تھا۔اس سفر میں فقرے بازی عام بات تھی مگر یہ فقرے بازی کبھی بھی دل آزاری نہیں ہوتی بلکہ ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتی تھی۔اگرکوئی لڑکی دوسری لڑکیوں کے گروپ سے ہٹ کر چل رہی ہو تو پیچھے سے کوئی کہتا ’’ بھئی دستور ہند میں چھوت چھات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔‘‘دوسرا کہتا ’’لگتا ہے آج ٹفن میں بھنا مرغا لائے ہیں ۔‘‘ کبھی کبھی جلدی میں لڑکیاں بغیر استری کے کپڑے پہن کرآتیں تو کہا جاتا ’’ نکڑ پر استری کرنے والے کی شادی ہوگئی کیا؟ ،فری میں نہیں کررہا ہے شاید ۔‘‘

ایک مرتبہ اچانک بارش ہوگئی ، ان دنوں ’’ برسات کی رات ‘‘ فلم چل رہی تھی، اس کا گیت تھا ’’ زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘‘ ہم سب بارش میں بھیگتے جارہے تھے کیوں کہ سنگلاخ چٹان پر دور دور تک سایہ نہ تھا سوائے بھاگنے کے کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ کسی نے گانا شروع کیا ’’ زندگی بھر نہ بھولے گا یہ برسات کا دن‘‘ اور یہ پیروڈی بارش میں بھیگتے ہوئے قوالی کی شکل میں چل پڑی ، اتفاق سے دو اساتذہ بھی تھے ، وہ بھی ہنسنے لگے۔

ہماری ایک ساتھی تھیں مہر نگار، خوبصورت اور خوب سیرت تھیں۔ بھرت ناٹیئم سیکھ رہی تھیں ، میرے ساتھ کلاس کی جانب جارہی تھیں ۔ سائنس کالج کے ایک طالب علم نے جلدی سے آگے آکر کہا ’’ آداب خالہ‘‘ مہر نے برجستہ کہا ’’ جیتے رہو بیٹے، امی کو سلام کہو۔‘‘شریر لڑکے کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی پھر انہوں نے کبھی کوئی شرارت مہر کے ساتھ نہیں کی۔

اساتذہ بھی بچ نہیں سکتے تھے ، خاص طور پر انگریزی کے استاد سراج الدین صاحب ، انہوں نے کوئی انگریزی کی نظم شروع کی ، پیچھے سے اردو میں سوال کیا جاتا ’’سر اردو غزل میں یہ بات کیوں نہیں کی جاتی؟‘‘ سراج صاحب انگریزی اور اردو دونوں پر عبور رکھتے تھے ۔ اکثر اردو غزل کے ایسے اشعار بھی سنے جاتے تھے جو انگریزی شعراء کے خیال سے ملتے تھے ۔ ایک مرتبہ کسی لڑکے نے ان سے سوال کیا : سر! لڑکے بوسہ کیوں لیتے ہیں ؟ سراج صاحب ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگئے پھر سنبھل کر کہا :اس کا جواب اگلی کلاس میں دوں گا…

ایک مرتبہ ایک لڑکے نے ایک تصویر کھینچی ، وہ اس طرح تھی کہ روسی پروفیسر جو اردو میں شاعری کرتے تھے، ڈاکٹر کمار کے ساتھ چل رہے تھے ۔ کمار صاحب ہاتھ ہلا ہلا کر بات کررہے تھے ، تصویر کچھ ایسی لگی کہ جیسے کمار صاحب روسی پروفیسر کی جیب کاٹ رہے ہوں ، یہ تصویر اس نے انگریزی کے شعبے میں لگا دی۔ کمار صاحب کو پسند آگئی اور انہوں نے اس کو اپنی میز پر رکھ لیا تھا۔

حفیظ قتیل صاحب اردو کے استاد تھے ، پان بہت کھاتے تھے اور جب پڑھاتے تو بہت راگ راگنی کا خیال رکھتے تھے او رپان کی پیک پوری کتاب پر نقش و نگار بناتی تھی ۔ ان کو کتاب دینا بہت خطرناک ثابت ہوتا تھا ۔ ایک بار انہوں نے ازراہ مزاح پوچھا نثر پڑھائیں یا نظم؟ کسی نے کہا کچھ بھی پڑھائیں راگ تو دونوں میں ہوگا۔قتیل صاحب مسکراتے رہ گئے ۔ راجیا ہمارے شعبے کا چپراسی تھا ، اس کو چار آنے دے کر ہم کہتے تھے کہ حاضری لگتے ہی آکر کہنا کے پرنسپل صاحب نے بلایا ہے ۔ سید محمد صاحب کی کلاس تھی کہ کم بخت راجیا آکر کہہ گیا کہ پرنسپل صاحب نے بلایا ہے ۔ سید صاحب نے کہا پرنسپل صاحب تو سینٹ کی میٹنگ میں ہیں، ہم کو وہاں کیوں بلایا ہے ؟

آج کل کے بچے عام طورپر ہوٹلوں میں جاتے ہیں ، ہمارے زمانے میں نہ تو ریستوراں تھے نہ ہی ہوٹل ، ہم تولوگو ں کے ٹفن باکس پر اکتفا کرتے تھے۔کالج میں ایک لیڈیز روم تھا جہاں ایک خاتون نگراں کار تھیں جنہیں ہم ’’ دروغہ زنداں‘‘ کہتے تھے ۔ وہ تمام لڑکیوں کے ٹفن بکس لے کر بہ حفاظت تمام ( ان کے خیال میں) الماری میںرکھتی تھیں اور ساڑھے بارہ بجے وہ الماری کھول دیتیں اور ہم بڑی ہی نفاست سے دوسری لڑکیوں کے ٹفن اڑا لیتے جن کے پاس کافی ذائقہ دار کھانے ہوتے تھے۔ ایک لڑکی تھی جو محرم کے زمانے میں ملائی پراٹھے لاتی تھی لیکن خود اسے مشکل سے کھانے کو ملتا تھا مگر اس کے ٹفن باکس میں دوسرے کے ٹفن سے تھوڑا تھوڑا نکال کر رکھ دیتے تھے تاکہ وہ بھوکی نہ رہے ۔ حد تو یہ کہ اساتذہ کے ٹفن بھی ہمارے دانتوں تلے آجاتے ۔ ایک مرتبہ ان کے ٹفن میں کریلے تھے ، ہم کو استاد نے بتایا تھا کہ کریلا کھانے والے زندگی کی تلخی برداشت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔کالج کے علاوہ ہم نے مدرسے میں خوب شرارتیں کی تھیں ۔ ایک مرتبہ ہم شکرام میں بیٹھے تھے ، میرے ساتھی کی چوٹی کچھ زیادہ ہی لانبی تھی ، وہ دوسری لڑکی کی گود میں گر پڑی ۔ ان محترمہ کی چوٹی نہیں تھی ، تاگے کی چوٹی کافی لمبی تھی ۔ دو چار روز بعد میرے دوست کے دامن میں تاگے کی چوٹی آگری ۔ میری دوست کے ہاتھ میں بلیڈ تھی اس نے وہ چوٹی کاٹ دی اور دوسرے روز اس کودھوکر شکرام میں لگادی، جس کے نتیجے میں ہم دونوں کو شکرام سے نکال دیا گیا، ہم کو پیدل مدرسہ جانا پڑا تھا۔

آج ہم پڑھتے ہیں کہ طلباء اپنے ساتھیوں کی زندگی چھین لیتے ہیں تو لگتا ہے کہ شرارت تو وہ ہوتی ہے جسے یاد کرکے مسکراہٹ آجائے نہ کہ خوف سے گھبراتے رہیں ۔
٭٭٭

a3w
a3w