ذبیحہ گاؤ پر امتناع کے لیے قانون وضع کیا جائے۔ قومی جانور قرار دینے پر زور
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ نے مرکز سے یہ فیصلہ چاہا ہے کہ وہ گائیوں کو ”محفوظ قومی جانور“ قرار دے اور ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے لیے ایک مناسب قانون بھی وضع کرے۔
لکھنؤ: الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ نے مرکز سے یہ فیصلہ چاہا ہے کہ وہ گائیوں کو ”محفوظ قومی جانور“ قرار دے اور ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے لیے ایک مناسب قانون بھی وضع کرے۔
جسٹس شمیم احمد نے 14 فروری کو ایک درخواست کو مسترد کردیا، جس کے ذریعہ اترپردیش انسدادِ ذبیحہ گاؤ قانون 1955ء کے تحت ایک شخص کے خلاف فوجداری کارروائی کو کالعدم کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔ جج نے کہا کہ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں اور ہمیں تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہیے۔
ہندو ازم میں یہ عقیدہ ہے کہ گائے بھگوان کی نمائندہ اور قدرتی طور پر فائدہ پہنچانے والی یا مدد کرنے والا جانور ہے، لہٰذا اس کا تحفظ کیا جانا چاہیے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ بارہ بنکی کے ساکن درخواست گزار محمد عبدالخالق نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولیس نے انھیں کسی ثبوت کے بغیر گرفتار کیا ہے اور اسی لیے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں ان کے خلاف زیرالتوا کارروائی کو کالعدم کیا جانا چاہیے۔
بنچ نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ پر موجود حقائق کے پیش نظر درخواست گزار بادئ النظر میں درخواست گزار کے خلاف کیس بنتا ہے۔ جج نے حکم سناتے ہوئے کہا کہ گائے کو مختلف دیوی دیوتاؤں خاص طور پر بھگوان شیو سے منسوب کیا گیا ہے، جن کی سواری ایک بیل نندی ہے۔
اس کے علاوہ اندر دیوتا اور بھگوان کرشنا سے بھی گائے کو منسوب کیا گیا ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ عقیدہ کے مطابق سمدرا منتھن کے وقت گائیں دودھ کے سمندر سے ابھری تھیں اور اسے 7 سادھوؤں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ آخر کار وشستھا نامی سادھو نے اسے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
جج نے مزید کہا کہ گائے کے پاؤں چاروں ویدوں کی علامت ہیں اور اس کا دودھ چار پروشرتھا کی علامت ہے۔ اس کے سینگ دیوتاؤں کے سینگوں کی علامت ہیں۔ اس کا چہرہ سورج اور چاند اور اس کے کاندھے اگنی (خدا کی آگ) کی علامت ہیں۔ گائے کو دیگر شکلوں نندا، سنندا، سربھی، سشیلا اور سومنا بھی قرار دیا گیا ہے۔