امریکہ و کینیڈا

سلمان رشدی پر حملہ کرنے والا نوجوان کون ہے؟

عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق، ہادی مطر، جس کے پاس لیکچر میں شرکت کا پاس موجود تھا، اس وقت چھلانگ لگاکر اسٹیج پر پہنچ گیا جب اسے لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا جارہا تھا۔ ہادی مطر نے رشدی کے قریب پہنچ کر اس کے سینے اور گردن پر حملہ کردیا۔

حیدرآباد: متنازعہ کتاب ’’شیطانی کلمات‘‘ لکھنے والے ہندوستانی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی پر جمعہ 12 اگست کو مغربی نیویارک میں ایک لیکچر سے قبل حملہ کیا گیا۔

اس حملے نے اسے ایک آنکھ کھونے کے خطرے میں ڈال دیا ہے، اس کے بازو کے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور حملے کی وجہ سے اس کے جگر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

مقامی پولیس اور ایف بی آئی نے حملہ کرنے والے نوجوان کی شناخت کرلی ہے۔ حملہ کرنے والے نوجوان کا نام ہادی مطر بتایا گیا ہے جو فیئر ویو، نیو جرسی کا رہنے والا ہے۔ وہ اس وقت حراست میں ہے۔ 24 سالہ نوجوان ہادی مطر کو لبنانی نژاد امریکی شہری بتایا جارہا ہے۔

عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق، ہادی مطر، جس کے پاس لیکچر میں شرکت کا پاس موجود تھا، اس وقت چھلانگ لگاکر اسٹیج پر پہنچ گیا جب اسے لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا جارہا تھا۔ ہادی مطر نے رشدی کے قریب پہنچ کر اس کے سینے اور گردن پر حملہ کردیا۔

پہلے ہادی نے اپنے ہاتھ اور گھونسے استعمال کئے اور اس کے بعد اچانک چاقو نکال لیا اور گردن کے علاوہ اس کے پیٹ پر بھی چاقو سے ضرب پہنچائی جس کے نتیجے میں اس کے جگر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ہادی کے اس حملے کا مقصد ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے لیکن ہم ایف بی آئی، شیرف کے دفتر کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ نیویارک اسٹیٹ پولیس کے میجر یوجین سٹینزیوسکی نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بات بتائی۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، مطر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ "شیعہ انتہا پسندی” کا ہمدرد اور ایران کے اسلامی انقلابی گارڈس کا حامی ہے۔ اس کے بیگ سے دستیاب ہونے والے الیکٹرانک آلات (اسمارٹ فون وغیرہ) میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی تصاویر موجود تھیں، جنہیں 2020 میں امریکہ نے قتل کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ1988  میں شیطانی کلمات نامی ناول کے شائع ہونے کے بعد رشدی برسوں تک روپوش رہا۔ ایک سال بعد ایران کے مرحوم رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا۔ ایران نے رشدی کو مارنے والے کو 3 ملین ڈالر سے زیادہ کے انعام کی پیشکش بھی کی تھی۔

بتادیں کہ ’’شیطانی کلمات‘‘ کے جاپانی مترجم ہیتوشی ایگاراشی کو 1991 میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا، اسی سال اس کے اطالوی مترجم ایٹور کیپریولو کو چھرا گھونپ کر شدید زخمی کر دیا گیا تھا۔ کتاب کے ناروے کے پبلشر ولیم نیگارڈ کو 1993 میں قتل کی کوشش میں تین بار گولی مار دی گئی تھی لیکن وہ بچ گیا تھا۔