طنز و مزاحمضامین

سوراخوں والی تھیلی

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

اس دنیا میں ہر انسان کی بنیادی ضرورت روٹی کپڑا اور مکان ہے۔ اگر انسان کی زندگی میں شکر کا جذبہ ہو اور وہ اپنے حال پر مطمئن رہ کر آگے بڑھنے کا سوچے تو اس کی زندگی میں چین و سکون ہوگا ورنہ آج کی اس مادہ پرست زندگی میں ہر انسان اپنے سے اعلیٰ فرد کی طرف دیکھے اور اپنے پاس موجود نعمتوں اور سہولتوں پر ناشکری کرے تو وہ کبھی مطمئن زندگی نہیں گزار سکتا اور ہمیشہ پریشان اور نا آسودہ رہتا ہے۔ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے غلط راستے اختیار کرتا ہے اور اس کی لامتناہی پریشانیوں کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوگا۔ آپ اس مضمون کی سرخی پڑھ کر حیران اور پریشان ہوں گے کہ آخر ماجرا کیا ہے مضمون نگار کہنا کیا چاہتا ہے۔ فرض کریں آپ بینک کو گئے ہیں اور بینک سے حاصل کردہ نوٹ کے بنڈل ایک ایسے بستے اور بیگ میں رکھ کر بینک سے باہر نکلے ہیں جس میں سوراخ ہی سوراخ ہیں اور آپ سفر کے ہنگاموں اور راستے کے شور شرابے میں دیکھ ہی نہیں رہے ہیں کہ سوراخ والے بستے سے نوٹ گرتے جارہے ہیں اور گھر پہنچنے تک بستہ خالی۔ ایک بے وقوف کی تصویر ذہن میں لائیے جو ایک ایسے گھڑے کو نل کے نیچے پانی بھرنے کے لیے رکھتا ہے جس میں ایک دو نہیں کئی سوراخ ہیں اور وہ منتظر ہے کہ پانی کا گھڑا اب بھرا کہ تب بھرا جب کہ جس رفتار سے پانی بھر رہا ہے اسی رفتار سے پانی خالی ہورہا ہے۔ اب ان دو مثالوں کو ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں لیکن پھر بھی ہم میں سے اکثر کی حالت اس بینک کو لے جانے والے سوراخوں والے بستے اور نل کے نیچے سوراخوں والے گھڑے کو منتظر شخص سے کچھ کم نہیں۔ ایک مرتبہ ایک سرکاری ملازم ایک مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مولانا میری اچھی خاصی ملازمت ہے۔ تنخواہ بھی ایک لاکھ کے آس پاس ہے لیکن پھر بھی میری تنخواہ میں برکت نہیں۔ مولانا نے ان کے ماہانہ اخراجات کی تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ سرکاری ملازم موصوف نے ایک عالیشان گھر لینے کے لیے بینک سے ہاؤزنگ لون لیا ہوا ہے جس کی ماہانہ قسط تگڑی ہے۔ لوگوں کے بہکاوے میں آکر ایل آئی سی اور میڈیکل انشورنس کے پریمیم بھرتا ہوں، اچھی خاصی رقم اس میں خرچ ہوجاتی ہے، چار بچوں کو شہر کے اچھے معیاری اسکولوں میں پڑھاتا ہوں جن کی فیس کچھ زیاد ہ ہی ہے۔ بیوی جب بھی کوئی دعوت آتی ہے نئے کپڑوں اور زیب و زینت کے سامان خریدتی رہتی ہے۔ پکوان میں کچھ ماہر نہیں اس لیے بچے آئے دن ہوٹل سے آن لائن کھانے منگواتے رہتے ہیں۔ بچوں کے پاس گاڑیاں ہیں اور ان کے اسمارٹ فون میں ریچارج میں ہی کرتا ہوں۔ان سب باتوں سے میری تنخواہ دس تاریخ کے آس پاس ہی ختم ہوجاتی ہے اور باقی بیس دن گزارنے کے لیے پھر مجھے ساہوکار سے لون لینا پڑتا ہے جس کی واپسی مع سود مزید بوجھ بن جاتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ بس بس آپ کی کہانی سارے جہاں کی کہانی ہے۔ مولانا نے کہا کہ آپ عقل مند ہیں لیکن ایک ایسی تھیلی میں آپ اپنی تنخواہ ڈال رہے ہیں جس میں سوراخ ہی سوراخ ہیں جب تک ان سوراخوں کو بند نہیں کرو گے تنخواہ میں برکت نہیں آئے گی۔ لیجئے صاحب یہ معاملہ آج کے بیشتر متوسط طبقے کے گھرانوں کا ہے جو جھوٹی شان اور معیار زندگی کو بہتر ثابت کرنے کے لیے اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ ان خواہشات کی تکمیل میں صرف کرتے ہیں۔ کچھ گھروں میں مرد اور عورت دونوں کماتے ہیں تاکہ زندگی کی گاڑی میں توازن لایا جائے لیکن ایک دوسرے پر الزامات تراشی میں ان گھروں میں بھی سکون نہیں ہے۔ ہمارے حیدرآباد کے ہی ایک مشہور عالم دین اللہ انہیں غریق رحمت کرے مولانا عاقل صاحب تھے جو اپنے وعظ کے دوران کبھی کبھی ہنسی کی بات کرتے کرتے پتے کی بات کر جاتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے مسلمانوں کی معاشی بدحالی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمان حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں، انہوں نے کہا کہ لوگو بتاؤ اگر حرام اور حلال میں سے شروع کا ح کھا جائیں تو کیا بچے گا۔ مجمع میں سے کسی نے کہا کہ رام لال تو مولانا عاقل نے کہا کہ رام لال اور ہم میں آج کچھ فرق بچا ہے کیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے سماج میں ہماری ناک کٹ جائے گی یہ دلوں میں رکھ کر متوسط طبقے کے لوگ بھاری بھاری قرض لے کر بچوں کی شادیوں میں اسراف کر رہے ہیں۔لباس کھانے اور دیگر غیر ضروری رسومات میں دولت خرچ ہورہی ہے۔ سرکاری مدارس اور کالجوں کو چھوڑکر خانگی اداروں میں بچوں کی تعلیم کے لیے بھاری فیس اور ہر بچے کے ہاتھ میں ہزاروں روپے کے اسمارٹ فون ہماری تباہی کی بنیادی وجوہ ہیں اور ہم اسی خالی تھیلی کے مالک ہیں جس میں ہر مہینہ تنخواہ کی شکل میں لاکھ روپے ڈالے جاتے ہیں اور کئی قسم کے اقساط کی ادائیگی میں ہماری تنخواہ اسی سوراخوں والی تھیلی سے خالی ہوتی جاتی ہے۔ جس مولانا سے سرکاری ملازم نے سوال کیا تھا ان مولانا کی تنخواہ دس بیس ہزار سے زائد نہیں لیکن جب بھی پوچھیں پانچ سو ہزار دینے کے لیے تیار اور کبھی زندگی میں دولت کی کمی کا شکوہ نہیں کیا۔ اس لیے تمام سوراخوں والی تھیلی کے مالکین سمجھ لیں کہ جتنی چادر اتنا پیر پھیلائیں۔ پیر لانبے کرنے اور چادر کو لانبا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
٭٭٭