سیر احمد آباد

ڈاکٹر سید عباس متقی
جب ہمارے ہاتھ میں وظیفے کی رقم آتی ہے تو ہم پہلے اس جلد ختم ہوجا نے والی رقم کی کم مائگی اور پھر نوٹوں پر مہاتما گاندھی کی مسکراتی تصویر کو دیکھ کر روتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ یہ شخص کیسی قسمت لے کر اس دنیا میں آیا تھاکہ دنیا کا بھلا کرنے میں اس درجہ منہمک ومشغول رہاکہ اسے اپنا بھلا کرنے کا خیال تک نہ آیا اور ایک خیال خام کی طرح دنیاکی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا،لیکن جب نوٹوں کو گننے کا موقع آتا ہے تو اس کی یاد بہرصورت آہی جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ نوٹ گننے والے اس لیے مہاتما کو یاد نہیں کر تے کہ کہیں نوٹو ں کی گنتی بھول نہ جائیں۔تاحیات جس شخص نے مال و زر سے کوئی علاقہ نہیں رکھا،آج ہر نوٹ پر اس کی متبسم تصویر ساری قوم سے ایک سنائی نہ دینے والا سوال کرتی ہے۔افسوس راقم الحروف بھی اس سوال کی سماعت سے محروم ہے۔جب ہم نے احمد آباد کی سیر کی تو مہاتما گاندھی کا خوب صورت اوردیدہ زیب مکان بھی دیکھنے گئے۔مکان کے درو دیوار،دیدہ زیب تعمیر اور عرش و فرش دیکھ کر دنگ رہ گئے۔یہ کوئی بنگلہ نہیں تھا بلکہ بہت معمولی سامکان تھا لیکن اس کی تعمیر کچھ اس ڈھنگ سی کی گئی تھی کہ اس مکان کو دیکھنے کے بعد دل کو ایک سکون سا میسر آتا تھا۔تاہم یہ معلوم کرکے بہت افسوس ہوا کہ مہاتما گاندھی نے اس وسیع مکان میں بود وباش اختیار نہیں کی بلکہ اس مکان کے آنگن میں ایک چٹائی پر اپنے روز و شب گزاردیے اور ان لیڈروں کو ایک پیغام دیا جو دس دس بنگلے بناتے ہیں لیکن حرص و ہوا کے جراثیم،دل سے ہوا ہونے کا نام نہیں لیتے۔مہاتما گاندھی کا دل ہر قسم کے بھید بھاؤ اور چھوت چھات سے خالی تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ہر ہندوستانی کا دل بھی کچھ ایسا ہی ہو۔سب کے نصیب ایسے کہاں۔اس مکان کو ان کے چاہنے والوں نے بنایا تھا، اس لیے در و دیوار سے خلوص،عرش و فرش سے پیار اور سنگ و خشت سے محبت ٹپک رہی تھی۔دالان وسیع اور حجرے کشادہ تھے۔گو فرش، سنگ مرمر سے مزین نہیں تھالیکن معمولی پتھر غیر معمولی اثرات سے آراستہ تھے۔گو انہوں نے تفیض کردہ مکان کو ”محل“کہاتھالیکن ہم کوئی مہاتما تو تھے نہیں اس لیے اس خوب صورت مکان کے کیف و کم سے بہت متاثر ہوئے اور ہم نے اپنی بلند اقبال صاحب زادی سیدہ مہر النساء سلمہا سے کہا کہ بیٹا مجھے مہاتما گاندھی کا یہ مکان بہت پسند آیا ہے۔جو خوبیاں ایک مکان میں ہو نی چاہیے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ کچھ ایساہی مکان حیدرآباد میں بنایا جائے۔صاحب ہمم لڑکی نے جب باپ کے منھ سے یہ کلمات سنے تو کسی تامل کے بغیر کہہ یا کہ آپ فکر نہ کریں ایسا ہی مکان میں آپ کے لیے بنادوں گی۔یہ سن کر ہمارا دل باغ باغ ہو گیا اور اس باغ کے لالہ و گل دعاؤں کی خوش بو لٹا نے لگے۔تاہم ہم نے یہ بھی سوچا کہ شاید احمد آبادآنے میں ہم نے بہت دیر کردی ہے۔مہاتما کے مکان کا ایک حجرا مہاتما گاندھی کی یاد گاروں سے مزین ہے۔وہ یادگاریں ان کے استعمال میں آنے والے چرخے، جیبی گھڑی،قلم او ر ڈسک جیسی اشیاء پر مبنی تھیں۔جب ہم مہاتما گاندھی کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ان کی زندگی کا پل پل قوم کی فلاح و بہبود کے لیے وقف تھا۔مہاتما نے صوفیوں کی سی زندگی گزاری اگر مہاتما نے قدرے اوج و بلندی اختیار کرلی ہو تی تو ان کا شمار خوش نصیبوں میں ہو سکتا تھا مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کے مصداق مال و زر سے گریزاں و مخلص تام شخص کی تصویر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ جب ہندوستان کے خرد مندومعززلوگ مجھ جیسے صابر و شاکرآدمی کا خون کرسکتے ہیں تو پھر عام آدمی کس شمار میں ہیں۔ہندوستان میں ہر قدم پر کئی ایک نتھورام گوڑسے مہاتما گاندھی کے نقش قدم پر چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں تاکہ موقع ملتے ہی قدم سے قدم ملانے والے کے قدم لے کر اسے ملک عدم پہنچا دیا جائے۔سیر احمد آبا د کے دوران ہم نے ایک عظیم الشان خانوادے کی ایک عظیم المرتبت شخصیت سے ملاقات کو بہر صورت واجب گرداناکہ ہمیں جواں سال مقررین سے مل کربہت خوشی ہو تی ہے۔ پوچھتے پوچھتے مسکن انوار جا پہنچے۔جاتے جاتے کچھ ہدیہ شعر لیتے گئے کہ احمد آباد بھی شعر فہمی اور صلہ نوازی میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔انتظار کے کافی ساغر کھینچنے کے بعد مسند ارشاد تک رسائی حاصل ہو ئی۔ہم نے حیدرآبادی پاس داری کا ثبوت دیا اور قدم لیے اور اپنا لامیہ قصیدہ سنایا جو خاص حضرت والا تبار کے لیے ہم نے رقم کیا تھا۔خانوادے میں شور تحسین بر پا ہوا۔ممدوح بھی خوش تھے کہ حیدرآباد میں ابھی جواہر پاش شعراء موجود ہیں۔ہم سوچ رہے تھے کہ شاید ممدوح اپنے مداح کو کچھ نذر ضرور کریں گے، غریب آدمی امید کے سہارے کچھ لکھتا ہے۔ہم نے سوچا جو حضرت نوازیں گے اس نوٹ کو خواہ وہ پانچ کا نوٹ ہی کیوں نہ ہو ہم اسے فریم کرواکر رکھیں گے اور اپنے دوستوں کو بتائیں گے کہ مدح پر داد دینے والے یوں دادشعر دیتے ہیں۔کچھ نہیں تو اتباع سنت میں اپنا رومال ہی دے دیں تو اسے ہم سینے سے لگارکھیں،لیکن سیرت کے واقعات بیان کرنے والے نے سیرت کی اس جھلک دکھانے سے ہمیں محروم کردیا اورہم سوچنے لگے کہ جو اپنی تقریروں میں خیر و تفضل کے عنوان سے عبدالرحیم خان خانان دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی حیات صد کرامات میں کس درجہ کفایت شعار ہو تے ہیں۔کشور ایران کے معروف حکمران ابراہیم غزنوی نے جب فردوسی کا حق تمجید ادا نہ کیا ہوتو ٹہرے ہوئے افکار اور ٹھٹھرے ہوئے جذبات سے عطا و نوازش کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔سیرت کے ان گوشوں پر عمل کرنا دل گردے کا کام ہو تا ہے۔ فیاض دل بازار میں نہیں ملتا اسے ماں کے شکم سے لانا پڑتا ہے۔اور پھرہم بے نیل مرام مٹھی بھر میٹھی بوندی کو لے کر دہلیز معطر سے گزر گئے۔٭٭