سوشیل میڈیاشمالی بھارت

مسلم تاجرین کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے۔ ہریانہ میں منعقدہ پنچایت میں مطالبہ

ہندو سماج کی نمائندہ ہونے کی دعویدار پنچایت نے انتظامیہ کو الٹی میٹم جاری کیا اور حاضرین سے خواہش کی کہ وہ اپنے اپنے مواضعات میں بائیکاٹ نافذ کرنے دیہی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔

گڑگاؤں: ہریانہ کے مانیسر کے ایک مندر میں آج منعقدہ پنچایت نے مسلم دکانداروں اور بیوپاریوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی۔

ہندو سماج کی نمائندہ ہونے کی دعویدار پنچایت نے انتظامیہ کو الٹی میٹم جاری کیا اور حاضرین سے خواہش کی کہ وہ اپنے اپنے مواضعات میں بائیکاٹ نافذ کرنے دیہی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔

اس پنچایت میں زائد از دو سو افراد نے حصہ لیا، جس میں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے ارکان بھی شامل تھے۔ شرکاء میں مانیسر، دھروہرا اور گڑگاؤں کے قریبی مواضعات کے لوگ بھی شامل تھے۔

پنچایت کے ارکان نے ڈیوٹی مجسٹریٹ کوایک یادداشت حوالے کی اور غیرقانونی تارکین وطن کا تخلیہ کرانے کا مطالبہ کیا۔ یادداشت میں کہا گیا کہ اس کی فوری تحقیقات کرائی جانی چاہیے اور غیرقانونی طور پر مقیم افراد کا فوری تخلیہ کرایا جانا چاہیے۔

یہ لوگ مذہب کی تبدیلی میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ وی ایچ پی مانیسر کے جنرل سکریٹری دیویندر سنگھ نے کہا کہ ہندو سماج کی جانب سے یہ پنچایت بٹھائی گئی تھی، تاکہ بڑھتی مذہبی بنیاد پرستی اور جہادی طاقتوں کے خلاف اس کی آواز اٹھائی جاسکے۔ اس نے کہا کہ ہندوؤں کو قتل کیا جارہا ہے۔

کئی بنگلہ دیشی، روہنگیا، حتیٰ کہ پاکستانی افراد بھی اپنی اصل شناخت چھپاتے ہوئے گڑگاؤں اور مانیسر میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں اپنے کاروبار جما لیے ہیں۔ ہم نے انتظامیہ کو غیرقانونی دستاویزات رکھنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے ایک ہفتہ کی مہلت دی ہے۔

اگر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو پھر ہندو سماج کارروائی کرے گا، بڑے پیمانہ پر ایک اور پنچایت بٹھائی جائے گی اور مستقبل کے لائحہئ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پنچایت میں کئی مقررین نے مسلم بیوپاریوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مانیسر میں مسلمانوں کی جانب سے چلائی جانے والی کئی جوس شاپس اور سیلونس کا نام ایک سازش کے تحت ہندو بھگوانوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا واحد حل ان کا معاشی بائیکاٹ کرنا ہی ہے۔