مذہب

مناقب حضرت غوث اعظم سیدنا عبد القادر جیلانیؒ

حضرت سید ابو صالح موسیٰ کا لقب جنگی دوست اس لئے تھا کہ آپؒ ریاضت اورنفس کشی میں فردِ واحد تھے آپؒ کا ہر کام خالصاً اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوتا، آپؒ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر دلیر مرد تھے اور اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

اللہ تعالیٰ ہدایت ِانسانی کی خاطر ہر دور میں مصلحِ قوم پیدا کرتا ہے، جو اپنی قوم کی ہر طرح سے رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ کوئی زمانہ ان پاکیزہ ہستیوں سے خالی نہیں رہتا، وہ رب تبارک وتعالیٰ کے منتخب ومحبوب بندے ہوتے ہیں۔ انکی ساری زندگی رضائے الٰہی کیلئے وقف ہوتی ہے۔ انکی حیات کا ہر لمحہ: اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، بولنا، کھانا پینا، عبادت کرنا، کسی سے محبت کرنا، کسی سے نفرت کرنا سب اللہ تعالیٰ کیلئے ہوتا ہے۔ یہ دربار الٰہی کے مخصوص انعام یافتہ بندے ہوتے ہیں اسی لئے ہر مسلمان کیلئے حالتِ نماز میں یہ دعا کرنا ضروری ہے :

اھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ (6) صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ : اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ قرآن کریم میں انعام یافتہ حضرات کا یوں ذکر کیا: وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَـئِکَ رَفِیْقا (سورہ نساء) اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا:انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور ان کی رفاقت کتنی اچھی رفاقت ہے۔ یہ مردانِ حق قوم وملت کی ہمیشہ اصلاح فرماتے رہتے ہیں، چونکہ امتِ محمدیہ ؐ میں کوئی نبی ورسول تشریف لانے والے نہیں ہے اس لئے اس امت میں یہ اہم فریضہ اولیاء کرام علمائِ عظام کے ذمہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اولیاء کی کئی قسمیں ہیں جیسے غوث، اقطاب، ابدال، اوتاد، نقباء، نجباء وغیرہ بعض اولیاء کرام کی ولایت کا شہرہ انکے بچپن ہی سے ہوتا ہے اور اکثر اولیاء عظام کی شہرت ان کی عمر کا ایک حصہ گزرنے کے بعد ہوتی ہے، سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ للہ علیہ ان اولیاء میں سے ایک ہیں جن کی شہرت بچپن ہی سے ہوئی۔ حضرت پیران ِ پیر دستگیر رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی عبدالقادر کنیت ابو محمد اور لقب مبارک محی الدین ہے۔ آسمانوں میں آپ کا لقب بازاشہب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو غوثِ اعظم کے خطاب سے نوازا ہے۔ آپؒ کی ولادت باسعادت ۴۷۰ھ میں ایران کے ایک قصبہ جیلان میں ہوئی۔آپؒ نے ۹۱ سال کی عمر پائی۔ اس طرح آپؒ کا وصال ۵۶۱ھ میں ہوا۔ آپؒ کے والد ماجد حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ نے آپؒ کی ولادت مبارکہ کی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ جناب سرکار دوعالم ؐ اپنے صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے ساتھ تشریف لائے ہیں، پوار مکان آپؒ کے انوار سے روشن اور منور ہوگیا، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خوش ہو کر ارشاد فرمایا: اے ابو صالح مبارک ہو آج اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ فرزند عطا فرمایا ہے جو میرا لاڈلا بیٹا اور محبوب ہے۔ یہ شیخ اعظم اور قطب زماں ہے۔(تفریح الخاطر)

حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے والد کا اسم گرامی سید موسیٰ کنیت ابوصالح اور لقب جنگی دوست تھا۔ آپؒ جیلان کے اکابر مشائخ میں سے تھے۔ ایک مرتبہ سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست ؒ ریاضات ومجاہدات کے دوران شہر سے کہیں باہر ندی کے کنارے سے گزر رہے تھے، آپؒ نے کئی روز سے کچھ نہ کھایا تھا، اچانک ندی میں تیرتے ہوئے ایک سرخ سیب پر نظر پڑی، آپؒ نے اسے اٹھالیا۔ شدت بھوک کی بناء پر آپؒ نے وہ سیب کھالیا، کھانے کے بعد خیال آیا کہ اس کا کوئی تو مالک ضرور ہوگا، جس کی اجازت کے بغیر ہی میں نے سیب کھالیا، آپؒ کے ضمیر پر یہ بات سخت گراں گزری، لہٰذا سیب کے مالک کی تلاش میں آپؒ ندی کے کنارے چل پڑے، کچھ دور پہنچے تو ندی کے کنارے ایک باغ نظر آیا، جس کے درختوں سے پکے ہوئے سیب پانی پر لٹکے ہوئے تھے، آپؒ سمجھ گئے وہ سیب اسی باغ کا تھا، باغ کے اندر تشریف لے گئے، تو باغ کے مالک سے ملاقات ہوئی، جن کا اسم مبارک حضرت عبداللہ صومعی ؒ تھا۔ ان سے بلا اجازت سیب کھالینے پر معافی چاہی، حضرت عبداللہ صومعی ؒ چونکہ خود خاصانِ خدا میں سے تھے، سمجھ گئے کہ یہ انتہائی نیک و صالح نوجوان ہیں۔

آپؒ کا نسب دریافت کیا تو حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کا نورانی گھرانہ پایا، آپؒ نے فرمایا کچھ عرصہ باغ کی رکھوالی کی خدمت سر انجام دو، اس کے بعد معافی پر غور کیا جائے گا، مقررہ وقت تک آپؒ نے یہ خدمت انتہائی دیانت داری سے انجام دی اور پھر معافی کے خواستگار ہوئے، حضرت عبداللہ صومعی ؒ نے فرمایا: ایک اور شرط باقی ہے، وہ یہ کہ تم میری معذور بیٹی سے نکاح کرلو جو آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، زبان سے گونگی اورپائوں سے اپاہج ہے، اگر انہیں نکاح میں قبول کرلو تو معافی دے دی جائے گی، حضرت ابو صالحؒ نے معافی کی خاطر یہ مطالبہ بھی قبول فرمایا اور نکاح کے بعد جب آپؒ نے حجرہ عروسی میں قدم رکھا تویہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ وہاں ایک انتہائی پاکیزہ اور خوبصورت خاتون بیٹھی ہوئی ہیں، گھبرا کر آپؒ الٹے پائوں فوراً باہر آگئے کہ شاید یہ کوئی نامحرم لڑکی آگئی ہے، اسی وقت اپنے خسرِ محترم کے پاس پہنچے اور اپنی پریشانی بیان کی، حضرت عبداللہ صومعیؒ نے فرمایا: اے شہزادے! یہی تمہاری بیوی ہے اور میں نے ان کی جو صفات بیان کی تھیں، درحقیقت وہ سب درست ہیں اور یہ تمہاری ہی زوجہ ہے، یہ اندھی اس لئے ہے کہ آج تک کسی غیر محرم کو نہیں دیکھا، بہری اس لئے ہے کہ خلافِ شرع کبھی کوئی بات نہیں سنی، یہ اپاہج اس لئے ہے کہ خلاف شرع کبھی کوئی کام نہیں کیا، یہ لنگڑی اس لئے ہے کہ خلاف شرع کبھی گھر سے قدم باہر نہیں رکھا اور یہ گونگی اس لئے ہے کہ خلاف شرع کبھی کوئی بات نہیں کی، یہ تھیں سیدہ ام الخیر فاطمہ، حضرت سید عبداللہ صومعی کی صاحب زادی، اور حضرت سیدنا ابوصالح موسیٰ جنگی دوست کی زوجہ مطہرہ جو انتہائی نیک خصلت، پاکیزہ فطرت اور باکرامت خاتون تھیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب والد اتنے متقی ہوں کہ ایک سیب بخشوانے کی خاطر کئی سال کی خدمت منظور کرلی، مگر یہ نہ چاہا کہ قیامت میں اس کے بدلے بازپرس ہو، اور ماں اتنی متقی وپرہیزگار ہو کہ کبھی غیر محرم کو نہ دیکھا ہو، خلاف شرع کبھی قدم نہ اٹھایا ہو اور عمر بھر کبھی خلاف شرع نہ بات کہی اور نہ سنی ہو تو پھر ان کے ہاں پیدا ہونے والا فرزند ارجمند قطب ربانی غوثِ صمدانی، محبوب سبحانی شہباز لامکانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ہی ہو سکتے تھے۔

حضرت سید ابو صالح موسیٰ کا لقب جنگی دوست اس لئے تھا کہ آپؒ ریاضت اورنفس کشی میں فردِ واحد تھے آپؒ کا ہر کام خالصاً اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوتا، آپؒ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر دلیر مرد تھے اور اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے تھے، آپؒ کی جرأت ودلیری کا ایک واقعہ ذکر کرنا مناسب ہوگا: ایک دفعہ حضرت سید ابو صالح موسیٰ ؒ جامع مسجد کی طرف جارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے ملازم نہایت احتیاط سے شراب کے مٹکے سروں پر اٹھائے لے جارہے تھے، آپؒ نے جب دیکھا تو غصہ سے ان مٹکوں کو توڑ دیا، آپؒ کے سامنے ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی، ملازمین نے خلیفہ وقت کو سارا واقعہ سنادیا اور خلیفہ کو آپؒ کے خلاف ابھاراتو خلیفہ وقت نے کہا سید موسیٰ کو فوراً میرے دربار میں حاضر کرو، حضرت سید موسیٰ دربار میں تشریف لے گئے، خلیفہ اس وقت انتہائی غصہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا آپؒ کون ہوتے ہیں جو میرے ملازمین کی محنت کو ضائع کردیں؟ حضرت سید موسیٰ نے کہا: میں محتسب ہوں، میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔

خلیفہ نے کہا: آپؒ کس کے حکم سے محتسب مقرر ہوئے ہیں؟ حضرت موسیٰ نے ( رعب انگیز لہجہ میں کہا) جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو، آپؒ کا یہ جواب سن کر خلیفہ پر ہیبت طاری ہو گئی، کچھ دیر بعد عرض کیا: حضور ِوالا! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بڑھ کر مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟ حضرت سید موسیٰ نے فرمایا: تمہارے حالِ زار پر شفقت کرتے ہوئے اور تمہیں دنیا وآخرت کی رسوائی وذلت سے بچانے کیلئے۔ خلیفہ پر آپؒ کی گفتگو کا بہت اثر ہوا اور عرض گزار ہوا: حضور والا! میں آپؒ کو محتسب کے عہدے پر مامور کرتا ہوں۔ حضرت سید موسیٰ نے فرمایا: جب میں مامور عن الحق ہوں تو مجھے مامور عن الخلق ہونے کی کیا ضرورت ہے( یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب مامور کر دیا، تو تیرے محتسب بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ) اسی دن سے آپؒ جنگی دوست کے لقب سے مشہور ہوگئے، آپؒ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے، اگر کوئی شخص آپؒ کو اذیت پہنچاتا تو وہ شخص ذلت و رسوائی میں گرفتار ہوجاتا۔ اسی طرح متقی و پرہیز گار حضرت سیدہ عائشہ رحمۃ اللہ علیہا حضرت سیدنا غوث الاعظم قدس سرہ العزیز کی پھوپی جان تھیں، آپؒ عابدہ زاہدہ عارفہ تھیں، شیخ ابو العباس احمد اور ابوصالح عبد اللہ الطبقی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جیلان میں قحط پڑ گیا، لوگوں نے دعائیں کیں، نماز استسقاء پڑھی، مگر بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سیدہ عائشہ عابدہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: آپؒ دعا فرمائیں کہ بارش ہوجائے: آپؒ نے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر جھاڑو دیا اور بارگاہ رب العالمین میں عرض کیا: فقامت الیٰ رحبۃ بیتھا وکنست الارض وقالت: یارب! انا کنست، افرش انت، قال: فلم یلبثوا ان مطرت السماء کافواہ القرب ورجعوا الیٰ بیتھم یحوضون فی الماء۔ اے میرے پروردگار! میں نے زمین صاف کردی ہے، تو اس پر چھڑکائو کردے۔ (راوی کہتے ہیں) تھوڑی دیر میں بارش شروع ہوگئی، ایسے جیسے مشکیزے کا منہ کھل جاتا ہے اور لوگ بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے۔ ( بہجۃ الاسرار، نزہتہ الخاطر والفاتر، قلائدالجواہر)

سیدنا پیرانِ پیر دستگیر ابھی ہوش سنبھالنے نہ پائے تھے کہ یتیم ہوگئے اور آپؒ اپنے نانا جان حضرت عبداللہ صومعی ؒ کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگے، آپؒ مادر زاد ولی تھے، آپؒ کی والدہ ماجدہ یکتائے زمانہ تھیںاور نانا جان جیلان کے مشائخ اور رؤسا میں سے تھے، آپؒ نہایت پرہیزگار اور صاحب کمال بزرگ تھے، آپؒ صاحبِ کرامت اور مستجاب الدعوات بھی تھے (بہجۃ الاسرار)حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا لقب گرامی محی الدین ہے، جس کا معنیٰ ہے دین کو زندہ کرنے والا۔ مفسر، محدث، مجدد تو ہر دور میں پائے جاتے ہیں اور بہت سے اولیائے کرام کے اسمائے گرامی بھی ایسے لکھے جاتے ہیں، مگر محی الدین کا لقب آپؒ کے سوا کسی کو نصیب نہ ہوا۔ ۵۱۱ھ کا واقعہ ہے کہ جمعہ کے دن آپؒ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک نہایت ہی کمزور اور خستہ حال شخص ملا، جس کے اندر اٹھنے یا چلنے کی بھی طاقت نہ تھی، اس نے انتہائی منت وسماجت سے آپؒ کو قریب بلایا اور عاجزانہ استدعا کی کہ میں بہت کمزور ہو چکا ہوں اور میرے اعضاء جواب دے چکے ہیں، خدا کیلئے آپؒ اس بیچارگی اور کمزوری میں میری مدد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپؒ کی بزرگی اور کرامت سے مجھے اس قابل بنادے کہ میں بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکوں۔

آپؒ کو اس پر رحم آیا، اس نے کہا کہ آپؒ مجھے اٹھا کر بٹھادیں۔ آپؒ نے اس پر نظر کرم فرمائی، کچھ پڑھ کر پھونکا اور اٹھا کربٹھا یا، تو اس شخص کا چہرہ با رونق اور ترو تازہ ہوگیا، میں حیران ہوا تو اس نے کہا تعجب کی کوئی بات نہیں، میں آپؒ کے نانا جان کا دین ہوں، جو مردہ ہورہا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپؒ کے ذریعہ مجھے نئی زندگی عطا فرمائی ہے اور آپؒ محی الدین ہیں۔ چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں: میں بغداد کی جامع مسجد کی حدود میں داخل ہوا تو ایک شخص نے یا سیدی محی الدین کے نام سے پکارا۔ جمعہ کی نماز ختم ہوئی تو لوگ محی الدین، محی الدین پکارتے ہوئے میرے ہاتھ چومنے لگے، حالانکہ اس سے قبل مجھے کسی نے بھی اس لقب سے نہیں پکارا تھا۔ (بہجۃ الاسرار، قلامد الجواہر، خزینۃ الاصفیاء، نفحات الانس، نزھۃ الخاطر الفاتر، سفینۃ الاولیاء)

انا الجیلی محی الدین اسمی
واعلامی علیٰ رأس الجبال

میں گیلان کا رہنے والا ہوں اور محی الدین میرا نام ہے اور میرے (فیض والے) جھنڈے پہاڑوں کی چوٹیوں پر لہرارہے ہیں۔

محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں: قد اسلم علیٰ یدي اکثر من خمسۃ اٰلاف من الیھود والنصاریٰ۔۔ الیٰ آخرہ (قلائد الجواہر) ترجمہ: بے شک میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد یہود ونصاریٰ نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوئون، فساق وفجار مفسد وبدعتی لوگوں نے توبہ کی۔ یہ تھاآپؒ کی تبلیغ اور رشد وہدایت کا اثر کہ مردہ دلوں کو حرارتِ ایمانی نصیب ہوئی، تو گمراہ رہبر بن گئے۔

اللہ تعالیٰ آپ ؒ کے فیوض وبرکات سے ہم سب کو مالامال کرے اور آپؒ کے علوم ومعارف کا فیضان ہم سب پر جاری کرے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭