سیاستمضامین

نیتا جی ’’ سراج الدولہ پہلے مجاہدِ آزادی‘‘آزاد ہند فوج کا نشان ’’ شیرِ ٹیپوسلطان ‘‘

سبھاش چندر بوس‘ سراج الدولہ کو ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کا پہلا سورما تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سراج الدولہ کے ساتھ غداری نہیں کی جاتی تو ہندوستان میں کبھی بھی انگریزوں کی حکومت قائم نہیں ہوتی اور ہندوستان غیر ملکیوں کا غلام نہ بن جاتا۔ میر جعفر نے اپنے اقتدارکو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمت اور کلائیو کا عطا کردہ اور برطانوی حکومت کا بخشا ہوا قابل احترام تاج سمجھ رکھا تھا اس لئے وہ اپنے آپ کو کلائیو کا گدھا کہا کرتا تھا ۔ سبھاش چندر بوس سراج الدولہ کے علاوہ ٹیپو سلطان کو بھی شہیدِ آزادی سمجھا کرتے تھے۔ انہیں ٹیپو سلطان کی ’’ شیر دلی پر فخر تھا‘ انہوں نے 8جولائی 1942ء میں قائم کردہ اپنی ’’ آزاد ہند فوج‘‘ کا نشان ٹیپو سلطان سے اپنی عقیدت کے باعث ’’ شیر‘‘ مقرر کیا تھا۔ چنانچہ آزاد فوج کی آزادی کی جنگ کے تعلق سے گیرارڈ ایچ کور نے جو کتاب لکھی اس کا عنوان خود ’’ حملہ آور شیروں کی جنگ‘‘ رکھا۔

سلیم مقصود

سبھاش چندر بوس کے ایک قریبی رشتہ دار سوگاٹا بوس نے مشہور اینکر کرن تھاپر کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ نواب سراج الدولہ ہی ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کے پہلے مجاہد تھے۔ انہیں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں پر شبہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ برطانوی حکومت ہندوستان پر قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرات کو ہندوستان سے ختم نہیں کیا گیا تو برطانوی حکومت یہاں قائم ہوجائے گی۔ وہ ہندوستان کو برطانوی غلامی سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنی کمزوریوں کے سبب ایک اتحادی معاہدہ کرنے کے باوجود بھی اس سے جنگ کا فیصلہ کیا ۔ لارڈ کلائیو کو اس بات کا یقین تھا کہ جب تک سراج الدولہ زندہ ہیں ‘ برطانیہ ہندوستان پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ اسلئے وہ سراج الدولہ کے خلاف جنگ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن سراج الدولہ کے 1000 فوجیوں کے مقابلے میں ایسٹ ا نڈیا کمپنی کے فوجیوں کی تعداد 300 سے زائد نہیں تھی ۔ لارڈ کلائیو کو سراج الدولہ کے سخت عزائم دیکھ کر یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اضافی فوج کے بغیر اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکے گی۔ اس لئے اس نے برطانوی وزیراعظم کو مزید فوجی امداد کی فراہمی کی ایک درخواست روانہ کی ۔ اس وقت برطانوی افواج فرانسیسی شہنشاہ نپولین بوناپارٹ سے نبردآزما تھی۔ اس لئے برطانوی وزیراعظم نے کلائیو کو ایک تلخ جواب روانہ کردیا کہ وہ فرانس کے ساتھ جنگ زدہ ہونے کے باعث اس کے لئے اضافی فوج روانہ کرنے سے قاصر ہے۔ اسے موجودہ 300 سپاہیوں ہی سے جنگ جیتنا ہے ۔
کلائیو کو جب یہ مایوس کن جواب مل گیا تو اس نے جنگ کے دوران ہی سازش اور غداری سے سراج الدولہ کو قتل کردینے کا منصوبہ بنایا ۔ اس نے اپنے بعض مکار ‘ غدار اور دولت و اقتدار کے بھوکے ہندوستانیوں کو سراج الدولہ کی فوج میں نااتفاقی ‘ نفاق‘ پھوٹ اور لالچ پیدا کرنے کے لئے روانہ کردیا۔ کلائیو نے جاسوسی اور عیاری کے ذریعہ پتہ چلالیا کہ سراج الدولہ کا قریبی آدمی میر جعفر اقتدار اور دولت حاصل کرنے اور بنگال کا نواب بننے کے خواب بے چینی سے دیکھ رہا ہے ۔ چنانچہ اس نے میر جعفر کو ایک خط لکھا کہ ’’ اگر تم نے سراج الدولہ سے بغاوت کی اور ہمارا ساتھ دیا تو تمہیں بنگال کا نواب بنایا جائے گا۔ اور تمام دولت و عزت تمہیں دی جائے گی۔ تمہارے خلاف کوئی سازش اور بغاوت نہیں کی جائے گی ۔‘‘ میر جعفر نے کلائیو کی پیش کردہ تمام باتوں کو قبول کرلیا اور اس کے بدلے میں سراج الدولہ سے ناراض اس کے بعض فوجی افسروں کو بہت سی لالچیں دیں چنانچہ انہوں نے میر جعفر کا ساتھ دیا۔
پلاسی کی اس جون1757ء کی تاریخی جنگ میں ہندوستان کی آزادی کا چراغ بجھ گیا ۔ سراج الدولہ مارا گیا۔
سبھاش چندر بوس‘ سراج الدولہ کو ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کا پہلا سورما تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سراج الدولہ کے ساتھ غداری نہیں کی جاتی تو ہندوستان میں کبھی بھی انگریزوں کی حکومت قائم نہیں ہوتی اور ہندوستان غیر ملکیوں کا غلام نہ بن جاتا۔ میر جعفر نے اپنے اقتدارکو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمت اور کلائیو کا عطا کردہ اور برطانوی حکومت کا بخشا ہوا قابل احترام تاج سمجھ رکھا تھا اس لئے وہ اپنے آپ کو کلائیو کا گدھا کہا کرتا تھا ۔ سبھاش چندر بوس سراج الدولہ کے علاوہ ٹیپو سلطان کو بھی شہیدِ آزادی سمجھا کرتے تھے۔ انہیں ٹیپو سلطان کی ’’ شیر دلی پر فخر تھا‘ انہوں نے 8جولائی 1942ء میں قائم کردہ اپنی ’’ آزاد ہند فوج‘‘ کا نشان ٹیپو سلطان سے اپنی عقیدت کے باعث ’’ شیر‘‘ مقرر کیا تھا۔ چنانچہ آزاد فوج کی آزادی کی جنگ کے تعلق سے گیرارڈ ایچ کور نے جو کتاب لکھی اس کا عنوان خود ’’ حملہ آور شیروں کی جنگ‘‘ رکھا۔
سبھاش چندر بوس ‘ پروفیسر سوگاٹا بوس کے بیان کے مطابق مغل حکمرانوں کی حکومتوں کو ہندوستانیوں (ہندو و مسلمانوں) کی حکومتیں تصور کرتے تھے اس لئے انہیں بابر اور اکبر دونوں بہت عزیز تھے۔ بابر شاید دور اندیشی اور خوش مزاجی کے سبب اور اکبر اپنی فراخدلی کے باعث ان کے لئے قابل ستائش تھا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جھانسی کی رانی ‘ ناناصاحب ‘ بھگت سنگھ اور تانیتا ٹوپے سے بہت پہلے ہندوستان کی پہلی آزادی کی لڑائی جون1757ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ نے پلاسی کے میدان میں انگریزوں سے لڑی تھی راجہ نونیت رائے نظرؔ نے آزادی کے اس دیوانے کی شہادت کے بعد وطن مالوف کے ناگفتہ بہ حالات کی طرف اپنے اس شعر سے اشارہ کیا تھا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مرگیا‘ آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
1757ء سے 1857ء کے دوران کوئی موسم ایسا نہیں گزرا جس میں مسلمانوں کے لہو کی موسلادھار بارش نہ ہوئی ہو۔ مسلمانوں نے اس عرصے میں چھوٹے بڑے سینکڑوں معرکوں میں اپنا خون بہایا ہے۔ پلاسی کی جنگ یقینا ًہندوستان اور دنیا کی چند فیصلہ کن اور اہم جنگوں میں شامل ہے اس جنگ نے ہندوستان کی تقدیر ہی بدل ڈالی۔ اس جنگ کے بعد ہندوستان میں انگریزوں کی فتوحات کا بلا روک ٹوک سلسلہ شروع ہوا۔ اور اس بظاہر چھوٹے سے اور بے ضرر نظر آنے والے اژدھے نے بہت ہی کم عرصے میں سارے ہندوستان کو نگل لیا۔ انگریزوں کو ہندوستانی جنگوں میں کامیابی یا فتح عصری اسلحہ یا عمدہ حکمت عملی یا شجاعت و بہادر سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے ہندوستانیوں کی کمزوریوں ‘ باہمی عدم اتفاق و عدم اتحاد کے ساتھ ساتھ اپنی عیاری مکاری‘ بدعنوانی اور جھوٹے وعدوں سے فتح حاصل کرلی۔ جنگ پلاسی میں انہوں نے بزدلی سے سراج الدولہ کے ساتھ نہایت ہی بدترین عہد شکنی کی ۔ انگریزوں کو پلاسی کی جنگ میں ظفر یابی سے دو اہم چیزیں حاصل ہوئیں جس نے ان کے ناجائز اقتدار ک زہریلے پنجوں کو ہندوستان کے سینے میں گہرائی تک گاڑھ دیا ۔ ایک تو بنگال مکمل طور پر ان کے تصرف میں آگیا بلکہ اب انہیں ہندوستان میں استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے وکٹوریہ حکومت کے خزانوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ فرنگی یہاں پر قدم جماکر ولندیزیوں ‘ فرانسیسیوں ‘ اور پرتگالیوں کو شکست دینے کے قابل بن چکے تھے۔ اس جنگ کے بعد ہی برطانیہ نے تجارتی کمپنی کا چولا اتار کر تاج برطانیہ کی ہندوستان میں فرمانروائی کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ اس جنگ سے انگریزوں کو ہندوستان کی ایک بڑی تجارتی منڈی ہاتھ لگ گئی۔
سراج الدولہ انگریزوں کے راستے کا پہاڑ تھے کہ اگر انگریزوں کی سازشوں کے زلزلے نہ آتے تو انہیں ان کے راستے سے ہٹانا مشکل ہوجاتا۔ انگریزوں کی خوش نصیبی اور مسلمانوں کی بدنصیبی تھی کہ پلاسی کی شکست نے مشرق وسطیٰ تک انگریزوں کے لئے کئی راستے ہموار کردیئے۔ اور اس کے بعد آج تک عالم ا سلام اس خطہ میں سنبھل نہیں پارہا ہے۔ ذلت‘ غلامی‘ جہالت‘ مایوسی اس خطہ کا مقدر بن گئی مگر مسلمانوں نے اس جنگ کے بعد بھی انگریزوں کو تحریک ریشمی رومال کے خاتمے تک ملک میں سکون کی سانس لینے نہیں دی۔
سراج الدولہ ‘ بنگال کے صوبیدار علی وردی خان کے پوتے تھے۔ علی وردی خاں بڑے رعب و دبدبہ کا آدمی تھا۔ فرانسیسی اور فرنگی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اپنی سرنگیں پیدا کرسکے لیکن وردی خاں کے دور میں یہاں ان کا کوئی بس نہ چل سکا۔ علی وردی خاں‘ یوروپی طاقتوں کے عزائم سے بے خبر نہیں تھا۔ لیکن موت نے اسے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ زیادہ عرصہ تک اس سیلاب کو روک سکتا مگر مرنے سے پہلے اس نے اپنے جانشین اور پوتے سراج الدولہ کو وصیت کی تھی کہ وہ انگریزوں کو اپنے قلعہ تعمیر کرنے اور بنگال کے علاقے میں اپنی افواج رکھنے نہ دے سراج الدولہ تخت پر بیٹھنے سے قبل ہی انگریزوں کے مذموم ارادوں سے بخوبی واقف تھے ۔ محمد شاہ کے زمانے میں دہلی کی نااہل اور کمزور حکومت سے فائدہ اٹھا کر بہت سے صوبیداروں نے ا پنی خودمختار حکومت بنالی تھی۔ صوبیدار علی وردی خان بھی حکمران بن چکا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے پوتے سراج الدولہ کے تخت نشین ہوجانے سے انگریزوں کو ہندوستان میں فرانس کے اثرات بڑھنے کا اندیشہ پدیا ہوچکا تھا۔ انہوں نے سراج الدولہ کے خلاف فوری سازشیں شروع کردیں انہوں نے سراج الدولہ کی اجازت اور ان کے علم و اطلاع کے بغیر کلکتہ کے اپنے قلعہ کو مضبوط کرنا شروع کردیا اور چند نئے قلعے اور مورچے بھی تعمیر کرلئے۔ انہوںنے سراج الدولہ کے مخالفین کی حوصلہ افزائی اور انہیں پناہ دینی بھی شروع کردی انہیں طاقتور بنانے اور عمّال سلطنت کو مختلف طریقوں سے بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں‘ سازشوں اور فریب دہی کے واقعات سے تنگ آکر سراج الدولہ نے انہیں بنگال سے باہر نکال دینے کا فیصلہ کرلیا۔ انگریز سراج الدولہ کو مسلسل مشتعل کرتے رہے لیکن انہوں نے نہایت ہی مصلحت اور دور اندیشی سے انگریزوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی سعی کی مگر انگریزوں کے سروں میں تو سراج الدولہ کو تخت سے بے دخل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ وہ اس کی ہر کوشش کو اس کی کمزوری سمجھ کر اسے مزید مشتعل کرنے لگے۔ اس شدید ذہنی دباؤ سے گھبراکر سراج الدولہ نے انگریزوں سے خود ان کی شرائط پر مصلحت کرلی ۔ سراج الدولہ کی اس نادانی یا مجبوری سے انگریزوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بنگال میں اپنے قدم جمائے اور اس کے ساتھ ہی سازشوں کا ایسا مضبوط جال بچھادیا کہ سراج الدولہ کا اس میں پھنس جانا ناممکن نہیں تھا انگریزوں نے سراج الدولہ کے قریبی درباریوں کو ملالیا۔ جو انگریزوں کی پالیسی کے مطابق سراج الدولہ کو انگریزوں سے جنگ کرنے کا غلط مشورہ دینے لگے۔ تاہم ان کے رویہ میں اچانک تبدیلی پیدا ہوجانے سے سراج الدولہ کو چوکنا کردیا ۔ وہ اپنے امیروں اور فوج کے بڑے بڑے عہدیداروں کی سازشوں کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے فرانسیسیوں سے اس نازک موقع پر مدد چاہی لیکن شاید یوروپ کی پیچیدہ فوجی صورتحال کے ناموافق ہونے کے باعث وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے اپنے وطن عزیز کو محفوظ رکھنے کے لئے مرہٹہ برادران وطن سے بھی مدد کی خواہش کی مگر مرہٹے تو اپنے ذاتی مفاد اور لوٹ مار سے زیادہ کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر سراج الدولہ کو کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ سراج الدولہ نے دہلی کی مرکزی حکومت کو بھی آگاہ کروایا مگر خود دہلی میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی ایسے میں کون سراج الدولہ کی مدد کرتا۔ اودھ کے والی نے بھی انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اس خطرے کو محسوس کرکے سراج الدولہ کی درخواست پر آگے بڑھنے کی مساعی نہیں کی ۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر سراج الدولہ نے میر جعفر جیسے غداروں کو غیرت دلائی۔ بظاہر انہوں نے سراج الدولہ کا ساتھ دینے کی قسم کھائی لیکن مجبور ہوکر سراج ا لدولہ نے چار و ن اچار ان کے وفاداری کے وعدوں پر بھروسہ کیا اور انگریزوں کے خلاف پلاسی کے میدان میں جنگ چھیڑ دی مگر اس بے بس عاشق وطن کو بری طرح ناکامی ہوئی اور اس جنگ میں شہید ہوگیا مگر اس نے یر جعفر ‘ میر صادق کی زندگی یا ان کے جیسی موت قبول نہیں کی ۔ اس دردناک واقعہ کے ساتھ ہی تحریک آزادی کی چنگاری پلاسی کی جنگ کی راکھ میں دب گئی!