مذہب

ٹیک لگا کر کھانے کی ممانعت

سنن ابن ماجہؒ اور طبرانیؒ کی ایک حدیث میں اس فرمان رسول کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی ا کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری کا ہدیہ آیا۔ آپؐ اسے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھے تناول فرمارہے تھے

رسول اللہ ا نے فرمایا:
’’لَا آکُلُ وَاَنَا مُتَّکِیئٌ‘‘۔ (صحیح البخاری)
’’میں ٹیک لگائے ہوئے کھانا نہیں کھاتا‘‘۔

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

اس سے معلوم ہوا کہ ٹیک لگا کر کھانا نبی صلعم کے اسوۂ حسنہ کے خلاف ہے۔

سنن ابن ماجہؒ اور طبرانیؒ کی ایک حدیث میں اس فرمان رسول کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی ا کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری کا ہدیہ آیا۔ آپؐ اسے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھے تناول فرمارہے تھے، ایک دیہاتی شخص نے کہا: یہ اندازِ نشست کیا ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَنِی عَبْداً کَرِیْماً وَّلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّاراً عَنِیْداً‘‘ (فتح الباری) ’’اللہ نے مجھے عبدکریم (متواضع بندہ) بنایا ہے، سرکش اور تکبر کرنے والا نہیں بنایا‘‘۔

حافظ ابن حجرؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ کھانا کھاتے وقت ایسے انداز سے بیٹھنا چاہئے جس میں تواضع اور فروتنی ہو، متکبر اور سرکش لوگوں کی طرح تکبر اور فخر و غرور کا اظہار نہ ہو۔ علاوہ ازیں ٹیک نہ لگائی جائے۔ ٹیک لگانے کی متبادل صورت یہ ہے کہ دیوار یا تکیے پر سہارا ہو۔ اس طرح کھانا اسوۂ حسنہ کے خلاف ہے۔ اسی طرح بعض علماء نے ایسے آرام دہ اندازِ نشست کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے جس سے کھانا فراوانی سے کھایا جائے۔ گویا بسیار خوری بھی ناپسندیدہ ہے اور متکبرانہ طور طریقے بھی مکروہ ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے کھانا کھانے کی دو پسندیدہ صورتیں لکھی ہیں: (۱) دونوں پیروں پر گھٹنوں کے بل بیٹھا جائے۔ (۲) دایاں پائوں کھڑا رکھے اور بائیں پر بیٹھے۔ ( فتح الباری)

کھانے سے فراغت کے بعد نبی ا یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ارشاد ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ کَثِیْرًا طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ، غَیْرَ مُکْفِیٍّ وَّلَا مُوَدِّعِ وَّلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا‘‘۔ (صحیح البخاری) ’’تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں‘ بہت زیادہ پاکیزہ کثیر البرکت، نہ کفالت کیا گیا اور نہ یہ آخری کھانا ہے، نہ اس سے بے نیازی برتی جاسکتی ہے، اے ہمارے رب!‘‘۔

یعنی ہم نے جو کھایا ہے وہ مابعد کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اے اللہ! تیری نعمتیں تو سدا رہنے والی ہیں، زندگی بھر ختم ہونے والی نہیں ہیں۔یہ ہمارا آخری (الوداعی) کھانا نہیں ہے بلکہ جب تک زندگی ہے کھاتے رہیں گے۔
٭٭٭