طنز و مزاحمضامین

چاندی کا کٹورا

ڈاکٹر سید عباس متقی

اتوار بازار بھی عجیب بازار ہو تا ہے۔اگر کوئی صاحب نظر ہو اور ذوق کامل رکھتا ہو تو کروڑوں کا مال کوڑیوں میں مل جاتا ہے۔ہم Antiqueسامان کے رسیا ہیں اور Old is Gold کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں پرانے مکانات،پرانی کتابیں اور پرانی آسائش و زیبائش کی چیزوں سے گویا عشق ساہے۔کبھی کبھی ہم اپنی مختصر سی پونجی کوسنبھالے اتوار بازار کی سیر کونکل کھڑے ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے اشیاء کہن آثار کو خرید لیا کرتے ہیں۔چنانچہ ہمارا گزر ایک دن کباڑیے کی دوکان پر ہوا،نظر دوڑائی تو بہترے سامان میں ایک کٹورا مسلمانوں کی معیشت کی طرح کہیں کونے میں دبا پڑا تھا۔ یہ سیاہ و بد رنگ کٹورا چیخ چیخ کر اپنے ماضی کا مر ثیہ پڑھ رہا تھا کہ کبھی میں بھی رئیسوں کے دستر خوان کی زینت ہوا کرتا تھا،حسین و جمیل نازنینان زمانہ مجھے اپنے پھول جیسے ہونٹوں سے لگاتی تھی اور میں آب زلال سے ان کی پیاس بجھاتا تھا اور آج پھینکے اور دھتکارے ہوئے سامان میں اوندھے منھ پڑا اپنی قسمت کو رو رہا ہوں۔جو شے کی حقیقت کونہ سمجھے وہ نظر کیا،ہم تو ہر خوبصورت شے کے دیوانے ہیں خوا ہ وہ گوشہئ محراب میں دھری ہو کہ گوشہئ مسند پہ سجی ہو، ہم نے کباڑیہ کو آواز دی میاں ذرا وہ کٹورا تو نکالو۔پہلے تو اس نے نا گواری کے تیور دکھائے،کیوں کہ کٹورا نکالنے سے پہلے اسے دوسری بھاری بھرکم چیزوں کو نکالنا ضروری تھی۔زاں باد اس نے اسی تیور کریہہ کے ساتھ اس کٹورے کو ہمارے ہاتھ میں دے دیا۔کٹورا اپنی نا قدری کے سبب اشک فشاں تھا۔ ہچکیوں میں ٹہر ٹہر کر کہنے لگا تم کون ہو جو اس سیاہ کٹورے کے اجلے جوہر سے آشنا ہو، ہم نے کہا میں بھی ایک کٹورا ہوں جسے دنیا نے ٹھکرا دیا ہے، میرے چہرے پر بھی ناقدری کی کالک پوت کر بے گانہئ منزل کردیا ہے۔ میں بھی تیری طرح افلاس کے انبار میں کہیں دب کر رہ گیا ہوں۔تیرا کوئی خریدار نہیں تو میرا کب کوئی خریدار ہے۔
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چیخوں ہائے دل
ساحر نے کہا تھاکہ ”جاں سوز کی حالت کو جاں سوزہی سمجھے گا۔“میں تجھے ضرور خریدوں گا اور تجھ میں پانی پیوں گا اور روز تجھے پرانی املی کے بوٹ اور شفاف ریتی سے مانجھوں گا، میں تیرا حقیقی قدردان ہوں۔اتنا سوچ کر ہم نے دکان والے سے پوچھا میاں اس کا کیا لوگے کہنے لگا، ہزار روپیہ دینا ہوگا، ہم نے کہا بھائی ہم اردو کے ایک ٹیچر ہیں اور وظیفہ یاب ہیں، اتنا سنتے ہی اس نے ہمیں نیچے سے اوپر تک دیکھا گویا زبان حال سے کہہ رہا ہو حضرت تم میں اور اس کٹورے میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اس نے ہماری حالت زار کو ملاحظہ کرتے ہوئے پوچھا کیا دوگے۔ہم نے کہا بھا ئی ہماری گنجائش تو محض پانچ سو کی ہے، لیکن شام کی ہانڈی بھی اس موج ِ کہن میں جھونک دیتے ہیں، چھ سو لے لو بس اس سے زیادہ کی امید بے محل اور اصرار نا روا ہے۔کہنے لگا اچھا لے لو۔چھ سو پکڑا کر ہم نے کٹوراپکڑا اور اسے معاً سینے سے لگالیا۔آواز آئی ایک دن تمہارا بھی کوئی خریدار آنکلے گا اور تمہیں واجبی داموں خرید لے گا اور تم کروڑوں میں کھیلو گے اور تمہاری بھی چاندی ہی چاندی ہو گی مستزادپانچوں انگلیاں گھی میں اورسر کڑھائی میں ہوگا۔کٹورے کے اس دلاسے پر ہمیں وہ لوگ یا د آگئے جو ہمارے بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک کچھ ایسا ہی اچھا اچھا کہتے آرہے تھے کہ جوہر کنعاں مدام قید عزیز میں نہیں رہتا۔ایک نہ ایک دن وہ اورنگ ِمصر پر متمکن اپنا سکہ جاری کرتاہی ہے۔کیا عرض کیا جائے انہیں امیدوں پر ہی توہم نے عمر گزاردی ہے، لوگ لاکھوں میں کھیل رہے ہیں اور ہم پڑے پڑے کروڑوں میں۔کٹورا لیے گھر آئے اور گھر آتے ہی بیگم کو آوازدی کہ وہ املی کے دوبوٹ لے آئے۔بیگم حیران کہ املی سے شوق فرمانے کا سلسلہ تو بند ہوئے ایک مدت گزر گئی پھر انہیں یہ شوق کیوں اور کیسے چرارہاہے۔بعض وقت انسان نا ممکنات پر بھی غور کرنے لگتاہے۔پرانی املی اور تازہ پانی کو ملا کر جو ہم نے دو دو ہاتھ مارے پس چھپے ہو ئے جوہرکا ظہور ہو نے لگا۔کٹورے پر جو نقش لطیف تھے وہ ہویدا ہو نے لگے۔کٹورے کے پیندے میں فارسی میں مرقوم ایک مہر تھی اور کہنگی کے سبب اس کا پڑھ پانا دشوار تھا۔اب اسے اتفاق ہی کہہ لیجے کہ اسی دن ہمارے ایک عزیز شاگرد خواجہ میاں آٹپکے تھے جو سونے چاندی کا کاروبار کرتے ہیں۔ہم نے انہیں کٹورادکھایا،کہنے لگے ڈاکٹر صاحب میں اسے گھر لے جاتاہوں اور دیکھتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے۔دوگھنٹے کے اندر ہی خواجہ نے فون کیا کہ صاحب!آپ کی نظر کے بھی کیا کہنے،سو سال پرانا چاندی کاکٹوراہے اور شاید کسی رئیس کی یادگار ہے۔ہم نے کہاافسوس!چاندی کے ہونے نے اس کا سونا خراب کردیا۔ہم نے جس مقصد کے لیے اسے خریدا تھا وہ مقصد فوت ہوگیا۔اب وہ ہمارے لیے ایک نمائشی چیز بن کر رہ گیاہے۔مسلمان چاندی کے کٹورے میں پانی نہیں پیتے۔اب وہ ہمارے میز پر دھرا رہتاہے اور سوچتا ہے کہ وہ کس ملا کے پالے پڑگیاہے۔کل جو ہم صبح اٹھے فجر کی ادائیگی کے بعد پانی میں شہد ملا کر نوش جان کیا۔جب سے حکماء حاذق سے سنا ہے کہ شہداب کااستعمال بندے کو سلم اورچاق و چوبند رکھتا ہے اور پیٹ کو اپنی حدوں سے آگے نکلنے نہیں دیتا،ہم پابندی سے شہداب کا استعمال کرتے ہیں۔ہماراخیال ہے کہ مرد خواہ کتنا ہی وجیہہ کیوں نہ ہوتوند نکلتے ہی وجاہت خدا حافظ کہہ دیتی ہے اور آدمی ذوق ملبوسات سے بیگانہ ہو جاتاہے۔چنانچہ ہم مطعمات سے زیادہ ملبوسات سے انتساب رکھتے ہیں مستزاد شرق و غرب میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ شہداب نوش جان کرنے کے بعد ملاحظہ کیاکہ بیگم مسہر ی پر دراز ہیں،ہم نے انہیں گنگناکر جگایا”ا ے حسن ذرا جاگ تجھے عشق جگائے، بدلے میری تقدیر جو تو ہوش میں آئے“فلم میرے محبوب کا یہ گیت جو سنا تو مسکراتی ہوئی بیدار ہوئیں۔
ہم ایک ادیب آدمی ہیں،اپنی بیگمات کو گاگنگا کر جگاتے ہیں۔غیر شاعرانہ انداز سے ہلا کر یا کرخت آواز سے جگانا ہمارا شیوہ نہیں۔ہمیں تو ان شریف زادوں پر حیرت ہو تی ہے جو اپنی بیوی کو گا گنگنا کر کیاجگائیں گے،ان بے چاریوں کو پاؤں کی جوتی سمجھتے اور اپنی مردانگی کے قصائد پڑھتے ہوئے برملاکہتے بھی ہیں۔واقعی مرد بہت احسان فراموش ہو تا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسی پھول نے اس کے مشام جاں کو معطر کیا ہے،اسی کی منعبر چھاؤں میں اس کی روح نے آرام لیاہے،اسی گنج پنہاں سے اس نے لعل و جواہر لوٹے ہیں اور اب افسوس اسی شاخ چنار کے برگ و بار نوچ لینے پر وہ مصر ہے۔بن و بیخ کو اجاڑ نے پر آمادہ ہے۔شریک حیات کو خوش کرنے کے لیے سونے کے زیورات نہیں صرف شیریں کلمات چاہیے۔شہد اب کے اثر سے شاید زبان میں شیرینی پیداہوگئی تھی۔بیگم نے اپنی بڑی بڑی اور جھیل سی آنکھوں کو وا کیا۔نماز روزے کی پابندی نے انہیں اس عمر میں بھی صاحب جمال رکھاہے۔ہم نے پوچھا شہد پیوگی؟کہنے لگی میں نے تو ابھی منھ بھی نہیں دھویا۔ہم نے کہا شہدہی کا تو پانی ہے،کلی کرلواور یہ کہہ کرکلی کرنے کے لیے ہم نے وہ چاندی کا کٹورا خدمت عالیہ میں پیش کردیا۔پہلے تو انہوں نے شرما کے انکار کردیاہم نے اصرار کیاتو مان گئیں۔ہم نے سوچا جو عورت دو دو سوکنوں کو خوشی خوشی برداشت کرتی ہو یہ اس کا حق بنتاہے کہ اس کا شوہر اس کی کلی کے لیے چاندی کا کٹورا پیش کرے۔ ان کے تیورسے ایسا لگ رہاتھا گویا وہ ملکہ وکٹوریہ ہوں اور ہمارا انداز بتا رہا تھا کہ ہم ان کے شوہر نہیں ان کے چہیتے ملازم عبدالکریم ہوں۔بیگم نے کلی فرمائی۔ہم نے کہا جان من تمہارے بھی کیا نصیب ہیں۔چاندی کے کٹورے میں تم کلی کررہی ہواور ایشیاء کا ایک عظیم فن کار تمہیں کلی کروارہا ہے۔ شاہ جہاں نے تاج محل تو بنوایا لیکن ممتاز محل کو چاندی کے کٹورے میں کلی نہ کروائی ہو گی۔اب بتاؤ مابدولت زیادہ خاوند عزیز ہیں یا شاہ جہاں!بیگم نے آب شہد کو نوش جان کیااور زبان شیریں سے ارشاد فرمایا ”تم خاوند عزیز ہی نہیں پدر عزیز بھی ہو،مجھے یقین ہے کہ تمہارا فرزند تمہیں کبھی قید نہیں کرے گا۔“ لوگ اپنی منکوحات کی تعریف و توصیف میں پتا نہیں کیوں خساست برتتے ہیں درآنحالیہ کہ یہ سنت رسول ؐ ہے۔منکوحات کی نہ صرف یہ کہ تعریف کرنی چاہیے بلکہ خوب صورت القابات سے یاد کرنا چاہیے کہ یہ بھی صاحب لولاک کی سنت ہے۔ہم اپنی بیویوں کی تعریف و توصیف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔کیا عرض کریں انہیں باتوں سے تو وہ بہلی ہوئی ہیں ورنہ یہ فقیر کوئی سعودی عرب کا بادشا ہے نہ ابوظہبی کا کوئی شہزاد ہ۔خوب صورت لفظوں کا گویا ایک جال ہے کہ جس میں یہ مچھلیاں پھنسی ہوئی فرماں بردار سی ہیں اور اپنی خوش بختی پر ناز کرتی ہیں۔اب یہ مفرس و معرب لفظوں کا جادوہی تو تھا کہ ایک دن چھوٹی بیگم نے ہم سے پوچھ ہی لیاکہ سچ بتائیے کہ آپ کس کو زیادہ پیار کرتے ہیں۔ہم نے کسی تامل کے بغیر کہہ دیاکہ تمہیں اور کسے!تم جوان ہو،خوب صورت ہو،پڑھی لکھی نہیں ہو تو کیاہوا عقل مند اور سمجھ دار ہو،اور پھر شاہان وقت نے بھی تو نو تعمیر محرابوں میں وقت گزارنے کو زیادہ پسند کیاہے۔پرانے محلات سے نئی کوٹھیوں کا کیامقابلہ۔خوشی سے غریب کی آنکھیں چھلک گئیں اور ادھر ہم نے ساغرمحبت چھلکادیا۔عورتوں کی یہ عادت کہن ہے،وہ اپنے شوہر سے یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو۔جب منجھلی بیگم نے ہم سے یہ پوچھا تو ہم نے فلم سورج کا گیت سنا دیا۔اتنا ہے تم سے پیار مجھے میرے راز دا ر،جتنے کہ آسمان پہ تارے ہیں بے شمار۔اگر چہ بیگم کو فلموں اور گیتوں سے کوئی دل چسپی نہیں لیکن ہماری پسند کو خاطر میں لائے بغیر نہیں رہتیں۔فلموں کے گیت بہت کام کی چیز ہوتے ہیں، ان سے کام لینا آنا چاہیے۔پھر ہم نے اپنی محبت کی وضاحت کی کہ اگر تمہیں پیار نہ کرتا تو اس مہنگائی کے زمانے میں تم سے شادی کرتا۔کان پر ہاتھ رکھ کر بھاگ جاتا۔ دوسرے شریف مردوں کی طرح ایک بیوی پر اکتفا نہ کرتا،تمہاری محبت نے دراصل مجھے مرد بنا رکھا ہے۔تمہارارنگ سانولا ہوا توکیاہوا،سانولے رنگ کا نمک کچھ اور ہی چیز ہوتاہے۔تم تو نمک کی کان ہو۔ہماری باتیں سن کر وہ اتنا خوش ہوئیں کہ آنکھوں میں ستارے چمکنے لگے یہ دیکھ کر ہم نے جگنوؤ ں کو چمکا دیا۔ایک روز بڑی بیگم نے ہم سے پوچھ ہی لیاکہ تم نے اتنی شادیاں کی ہیں، سچ بتاؤ تم کس کو چاہتے ہو۔ہم نے کالر جھٹک کر شائستہ لہجے میں عر ض کیا جان من!آدمی کتنی ہی شیروانیاں کیوں نہ بنالے،شادی کی شیروانی،شادی کی شیروانی ہوتی ہے۔ان بے چاریوں کا تم سے کیامقابلہ۔تم اخبار ہواور وہ دونوں جمعہ اور اتوار کے ضمیمے ہیں۔ہم جمعرات کہنے والے تھے پھریاد آیا کہ جمعرات کو ضمیمہ نکلتانہیں۔تمہارے آنچل کی چاندنی سے میری حیات روشن ہے۔میں تمہیں چھوڑ کر ایک پل نہیں رہ سکتا دو دن جو غائب رہتا ہوں تو وہ میری مجبوری ہے۔گو میں شریعت کی اتباع میں دو دن تم سے دور رہتا ضرور ہوں لیکن دل،دل تو تمہارے پاس ہی رہتا ہے۔چودھویں کے چاند کا مریخ و زہرہ سے کیاعلاقہ۔لعل و زمرّد اپنی جگہ لیکن نیلم نیلم ہو تاہے۔موتیا اور چنبیلی اپنی بہار ضرور دکھاتے ہیں لیکن گلاب بہر صورت گلاب ہے۔ہماری تقریر دل پزیر سے بیگم کے دل سے غبار جاتارہا جو سوکنوں کے وجود کے سبب پیدا ہوگیاتھا۔کہنے لگیں زہے نصیب!موصوفہ نے اس درجہ خوشی کے عالم میں زہے نصیب کہا تھا کہ نصیب کے دروزاے کھل گئے اور ہم اپنی تقدیر پر رشک کرتے ہوئے خدا وند قدوس کے حضور معروضہ پیش کیاکہ اے خدا تو نے شریعت میں جتنی گنجائشیں رکھی ہیں وہ پوری فرماسکتا ہے،تجھے روکنے والا کوئی ہے نہ ٹوکنے والا۔ہم نے اس دعا کو چپکے چپکے خدا کے حضور پیش کیا۔ہم اس قسم کی دعائیں وحدہ ٗ لا شریک کو سنا تے ہیں شریک حیات کو نہیں۔