مضامین

گجرات ہماچل انتخابات جیتنے کے لیے سسودیا پر دھاوے؟

آشوتوش

حکومتی اداروں کی جانب سے اپوزیشن قائدین کی رہائش گاہوں اور ٹھکانوں پر چھاپوں کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیا ہے۔ یہ نام ہے عآپ لیڈر منیش سسودیا کا۔ ان پر عام آدمی پارٹی حکومت کی ایکسائز پالیسی کو تبدیل کرنے اور شراب کے تاجروں کو غلط فائدہ پہنچانے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ دہلی کے نئے لیفٹیننٹ گورنر نے جیسے ہی عہدے کی ذمہ داری سنبھالی، چیف سکریٹری سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ بعد ازاں محکمہ ایکسائز کے 11 افسران کو بھی اسی معاملے میں لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے معطل کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ عآپ کے جی کا جنجال بن گیا۔ خاص طور پر اس وقت جب اس محکمہ کے وزیر منیش سسودیا نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ شراب پالیسی میں جو بھی بے قاعدگی ہے ،اس کے لیے سابق لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل ذمہ دار ہیں کیوں کہ انہوں نے آخری وقت میں عآپ حکومت کی طرف سے بھیجی گئی فائلوں میں ہیرا پھیری کی تھی اور بی جے پی کے کچھ قائدین کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ یعنی خود منیش سسودیا نے اعتراف کیا کہ شراب کی پالیسی میں کچھ بے قاعدگی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف لیفٹیننٹ گورنر کی وجہ سے سرکاری خزانے میں جو ریونیو آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا، یعنی دھوکہ دیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ شراب پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کو 2000 کروڑ کا اضافی فائدہ مل سکتا ہے۔ تو کیا یہ سارے دعوے جھوٹے تھے؟ لیکن یہ چھاپوں سے زیادہ سیاست کا معاملہ ہے۔ جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں اپوزیشن لیڈروں، پارٹیوں اور حکومتوں کو سرکاری ایجنسیوں نے نشانہ بنایا ہے۔ 2019 کے بعد اپوزیشن لیڈروں کے یہاں اس طرح کے چھاپوں اور گرفتاریوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مہاراشٹر میں ہی تین بڑے لیڈر جیل میں ہیں۔ سابق وزیر داخلہ انیل دیش مکھ، نواب ملک اور شیوسینا لیڈر اور ادھو ٹھاکرے کے قریبی ساتھی سنجے راوت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اور انہیں ضمانت بھی نہیں مل رہی۔ دہلی میں کجریوال کے وزیر ستیندر جین دو ماہ سے جیل میں ہیں۔ جھارکھنڈ کی ہیمنت سورین حکومت نشانے پر ہے۔ ٹھاکرے حکومت کو گرانے کے بعد اب ان کا نمبر ہے۔ نتیش تو کسی نہ کسی طرح بچ گئے، لیکن اب بی جے پی سے تعلقات توڑنے کے بعد وہ کب تک بچیں گے یہ بحث زوروں پر ہے۔ اس لیے منیش کا چھاپہ اور مزید کارروائی اپوزیشن کو مسلسل کمزور کرنے کی حکومت کی کوششوں کی ایک اور مثال ہے۔ آج کی تاریخ میں ساری اپوزیشن مشترکہ تشویش کے بعد بھی بکھری ہوئی ہے۔ ان کے پاس نہ تو کوئی لیڈر ہے جو سب کو ایک چھت کے نیچے لا سکے اور نہ ہی کوئی ایک پروگرام۔ یہ حالات مودی کے لیے بہت موزوں ہیں۔ وہ چاہیں گے کہ اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ بدنام بھی ہو۔ یہ چھاپے یہ ثابت کرنے کے لیے بھی ہیں کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرنے والے اور انا کی تحریک شروع کرنے والے بھی دوسرے لیڈروں کی طرح اقتدار میں آنے کے بعد بدعنوان ہو چکے ہیں۔ اب وہ سرکاری مشینری کا استعمال کر کے پیسے بھی کما رہے ہیں۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں سواری کرتے ہیں، دو کمروں کے فلیٹ میں رہنے کی وکالت کرنے والوں نے حکومت سے کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنی رہائش گاہ کو محل میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاستدان خود اس قدر بدل چکے ہیں کہ پہچاننا مشکل ہے۔ تو انہیں الگ سے کیوں دیکھا جائے؟ باقی سب کی طرح وہ بھی حمام میں ننگے ہیں۔ ایمانداری کا لبادہ اوڑھنے والے بالکل بدل چکے ہیں۔ بی جے پی 2015 سے عآپ کی ایسی تصویر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب پورے ملک میں مودی کے اشو میدھ کے گھوڑے کو کوئی نہیں روک پا رہا تھا تو سیاست کے نوواردوں نے مودی کے کرشمے اور شاہ کی چانکیہ پالیسی کو اس طرح مات دی کہ دہلی میں بی جے پی 32سیٹوں سے گھٹ کر3پر آگئی اور AAP کو 70 میں سے 67 سیٹیں ملیں جو ‘نہ ماضی اور نہ مستقبل’ کی صورتحال تھی۔ اس کے بعد مودی حکومت نے عآپ کو کمزور کرنے کے لیے بہت کام کیا، لیکن 2020 میں وہ ایک بار پھر بھاری اکثریت کے ساتھ واپس آئی۔ 2022 میں انہوں نے پنجاب میں معجزہ کیا اور 92 سیٹیں جیت کر ماہر سیاسی کھلاڑیوں کی دکانیں بھی بند کر دیں۔ پرکاش سنگھ بادل اور امریندر سنگھ جیسے سینئر قائدین الیکشن ہار گئے۔ اگر یہ کرشمہ اسی طرح چلتا رہا تو بی جے پی کے لیے یہ خوف ہونا فطری ہے کہ کہیں یہ معجزہ گجرات اور ہماچل پردیش میں نہ دہرایا جائے۔ گجرات میں بلدیاتی انتخابات میں عآپ نے بی جے پی کے سورت جیسے بڑے گڑھ میں دھچکا لگایا ہے۔ بی جے پی پچھلی بار صرف چھ شہروں میں اپنی اچھی کارکردگی کی وجہ سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ AAP گجرات میں اب بھی شہروں کی پارٹی ہے۔ گاو¿ں میں اس کی جڑیں نہیں ہیں۔ گاو¿ں میں کانگریس کی حالت بہتر ہے۔ اور عآپ جتنی بہتر کارکردگی دکھائے گی، بی جے پی کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کی پوری کوشش ہوگی کہ عآپ گجرات میں اپنی جڑیں نہ جما سکیں۔ سی بی آئی کے چھاپوں کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پھر بی جے پی کو یہ ڈر بھی ہے کہ ایم سی ڈی کے الیکشن میں بھی اے اے پی بی جے پی کو زبردست شکست دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم سی ڈی انتخابات کو ملتوی کردیا گیا ہے اور یہ بہانہ بنایا گیا ہے کہ ایم سی ڈی کے تین اداروں کے انضمام کا عمل جاری ہے۔ مودی اور شاہ ایسے لیڈر ہیں جو ہر حال میں الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور اپوزیشن کو اقتدار سے دور رکھنا ان کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہر طرح کے حربے آزمانے سے دریغ نہیں کرتے۔ منیش پر حملہ اس کا پیش خیمہ ہے اور آئندہ بھی کجریوال ۔ مودی کے ٹکراو¿ کی خبریں آتی رہیں گی اور ان کے سپاہیوں پر چھاپے پڑتے رہیں گے۔