سوشیل میڈیاشمالی بھارت

10سالہ مسلم لڑکی کی عصمت ریزی۔ درد سے کانپ رہی لڑکی کی ویڈیو کشی

تقریباً 3 گھنٹوں تک لڑکی وہاں اکیلی رہی۔ کسی نے بھی لڑکی جس کا خون بہہ رہا تھا اور درد سے کانپ رہی تھی‘ ہسپٹال لیجانے کی کوشش نہیں کی۔

قنوج(یوپی): قنوج کے ڈاک بنگلہ گیسٹ ہاوز میں 10 سالہ مسلم لڑکی کے مبینہ عصمت ریزی کیس میں پولیس ابھی تک 4 گرفتاریاں عمل میں لائی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قنوج انوپم سنگھ کے مطابق گرفتار چاروں افراد زیادہ تر خاندان کے دوست ہیں۔ جن پر جرم کے ارتکاب میں مدد کا الزام عائد کیاگیا ہے۔ اصل ملزم ہنوز فرار ہے۔

پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے تیقن دیاکہ اصل ملزم کو گرفتار کرنے تمام کوششیں جاری ہیں 23 اکتو بر کو اتوار کے دن جرم کا مکرر ارتکاب کرنے والے کی جانب سے ایک اینٹ کے حملہ کے بعد لڑکی وہاں خون میں لتؐ پت پائی گئی۔

پولیس کو دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ دوپہر تقریباً 1:30 بجے اصل مشتبہ شخص لڑکی کے سامنے کھڑا اُس سے بات چیت کررہا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق لڑکی کو گیسٹ ہاوز میں لیجانے کے تھوڑی دیر بعد اس پر حملہ کیا اور تقریباً دوپہر 2 بجے وہ واپس چلاگیا۔

تقریباً 3 گھنٹوں تک لڑکی وہاں اکیلی رہی۔ کسی نے بھی لڑکی جس کا خون بہہ رہا تھا اور درد سے کانپ رہی تھی‘ ہسپٹال لیجانے کی کوشش نہیں کی۔ بجائے اس کے وہاں موجود لوگ ویڈیو کشی کرتے رہے۔ ان میں سے چندنے پولیس کو کال کرکے مدد طلب کی۔

مقامی پولیس چوکی انچارج منوج پانڈے نے اُسے ہاسپٹل لے گیا جہاں لڑکی کی حالت سدھر رہی ہے۔ لڑکی کے خاندان والوں نے طبی دیکھ بھال کیلئے حکومت سے مالی مدد طلب کی۔

اس کی ماں نے مقامی اخباری نمائندوں کو بتایا کہ حکام سے ربط پیدا نہیں کیا جاسکا۔ اس نے کہا کہ شاید مسلمان ہونے کے سبب ابھی تک کیس میں پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ اس نے مزید کہاکہ اگر لڑکی ہندو ہوتی تو ملزم کا مکان منہدم کردیاجاتا۔

ماں نے کہاکہ ہاسپٹل کے اخراجات کے لئے انہیں اپنا زیور بیچنا پڑرہا ہے۔

پولیس چوکی انچارج منوج پانڈے کی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے 15 تا 20 افراد کے خلاف تعزیرات ہند کے دفعات 228A‘ 354C‘ 505 (2) اور آئی ٹی قانون کے تحت ایف آئی آر درج کیا۔

پانڈے کے مطابق جب وہ جائے واقعہ پہنچا اس نے دیکھا کہ زخمی لڑکی جھاڑیوں میں پڑی ہے اور درد سے کراہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کرکے مدد طلب کررہی ہے۔ اس نے مزید کہاکہ 15 تا 20 افراد وہاں موجود تھے اور ویڈیو کشی اور تصویر کشی کررہے تھے۔ اس نے انہیں اس حرکت سے باز رکھا۔

ایف آئی آر میں تحریر کیاگیا کہ ان افراد نے غیر انسانی حرکت انجام دیتے ہوئے کم عمر لڑکی کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر تشہیر کرکے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

گُرساہائی گنج کے مقامی لوگوں کا ایک گروپ جس میں سابق رکن اسمبلی شامل تھے لڑکی کے علاج کیلئے 6 لاکھ روپے جمع کئے۔