مشرق وسطیٰ

غزہ میں اسرائیلی محاصرے کے باعث غذائی قلت سے 66 بچے جاں بحق

اسرائیل کی جانب سے محاصرے میں شدت اور غذائی امداد کی بندش کے باعث غزہ میں کم از کم 66 بچے غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

غزہ: اسرائیل کی جانب سے محاصرے میں شدت اور غذائی امداد کی بندش کے باعث غزہ میں کم از کم 66 بچے غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے ہفتہ کو جاری بیان میں اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ دودھ، غذائیت بخش اشیاء اور دیگر امدادی سامان کے داخلے کو روک کر بچوں کو بھوک، بیماری اور سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر رہا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کی بندش ایک ’جنگی جرم‘ ہے، اور یہ’عام شہریوں کو بھوکا مارنے کے ہتھیار کے طور پر بھوک کے دانستہ استعمال‘ کا ثبوت ہے۔

میڈیا آفس نے اس جاری صورتحال کو’غزہ میں بچپن کے خلاف مسلسل جرم‘ قرار دیا اور کہا کہ عالمی برادری کی شرمناک خاموشی کے سبب بچے فاقوں، بیماری اور سست موت کے شکنجے میں ہیں۔دفتر نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں، بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو’اس تباہی‘ کا ذمے دار قرار دیا اور اقوام متحدہ سے فوری مداخلت اور غزہ کے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد ’تشویشناک رفتار‘ سے بڑھ رہی ہے۔ ادارے کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں 6 ماہ سے 5 سال تک کی عمر کے 5,119 بچوں کو شدید غذائی قلت کے باعث علاج کے لیے داخل کیا گیا جو اپریل کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد اور فروری کے مقابلے میں 150 فیصد اضافہ ہے۔

یونیسف کے علاقائی ڈائریکٹر ایڈوار بیگبیڈر کے مطابق ”جنوری سے مئی تک صرف 150 دنوں میں 16,736 بچوں کو غذائی قلت کے باعث علاج کے لیے داخل کیا گیا یعنی روزانہ اوسطاً 112 بچے۔ ہر ایک کیس قابلِ بچاؤ ہے، مگر خوراک، پانی اور علاج ان تک پہنچنے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے فیصلے ہیں جو زندگیاں لے رہے ہیں۔ اسرائیل کو فوری طور پر تمام سرحدی راستوں سے امداد کے داخلے کی اجازت دینی چاہیے۔“