ایک کفریہ فقرہ
ایک شخص نے اپنی بیوی کو میکہ میں چھوڑ دیا تھا ، مختلف لوگوں نے اسے سمجھا یا کہ وہ اسے رُخصت کراکر لے آئے ؛ لیکن اس نے نہیں مانا اور انکار ہی کرتا رہا ، آخر اس کے والد نے سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو لے آئے ؛ لیکن اب بھی اس نے انکار ہی کیا ،
سوال:- ایک شخص نے اپنی بیوی کو میکہ میں چھوڑ دیا تھا ، مختلف لوگوں نے اسے سمجھا یا کہ وہ اسے رُخصت کراکر لے آئے ؛ لیکن اس نے نہیں مانا اور انکار ہی کرتا رہا ، آخر اس کے والد نے سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو لے آئے ؛ لیکن اب بھی اس نے انکار ہی کیا ،
اور والدہ کے اصرار پر کہنے لگا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بھی مجھے واپس لانے کو کہا تو میں نہیں لاؤں گا ، ایسے شخص کے لئے کیا حکم ہے ؟
کیا وہ اب بھی مسلمان ہے یا اس کا ایمان ختم ہوگیا ؟ ( محمد اسحاق، مہدی پٹنم )
جواب :- ایمان کی پہلی بنیاد اللہ تعالیٰ کو ماننا ہے ، اللہ تعالیٰ کو ماننے میں توحید یعنی اللہ کو ایک ماننا بھی داخل ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم وتقدیس بھی داخل ہے ،
یہ کہنا کہ ’’ اللہ کہیں گے تب بھی ہم نہیں مانیں گے ‘‘ اللہ تعالیٰ کی بے احترامی اور اطاعت خداوندی سے انکار ہے ؛ اس لئے یہ کفریہ لفظ ہے ، جس شخص نے ایسی ناشائستہ بات کہی ہے ، وہ مسلمان باقی نہیں رہا ،
اسے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے اور آئندہ کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لانی چاہئے :
إذا قال لو أمرنی اﷲ بکذا لم أفعل فقد کفر ۔ (فتاویٰ ہندیہ : ۲؍۲۷۱ ، الباب التاسع فی احکام المرتدین)