انٹرٹینمنٹ

اداکارہ اُروشی روٹیلا نے اپنے نام پر مندر ہونے کا دعویٰ کرکے نیا تنازعہ کھڑا کردیا (ویڈیو دیکھیں)

 انہوں نے مزید کہا کہ دہلی یونیورسٹی کے طلباء ان کی تصاویر پر مالا چڑھاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لوگ انہیں "دم دمئی" کہہ کر پکارتے ہیں۔

نئی دہلی: اداکارہ اُروشی روٹیلا نے اپنے نام پر مندر ہونے کا دعویٰ کرکے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ بدری ناتھ دھام کے قریب ایک "اُروشی مندر” موجود ہے، جو ان کے نام پر ہے۔ ان کے اس بیان پر مقامی پجاری اور عوام میں ناراضی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

متعلقہ خبریں
بنگلورو ریو پارٹی، تلگو اداکارہ ہیما کو ایک اور نوٹس
شمس آباد کی مندر میں مورتی کو نقصان، ایک شخص گرفتار
ماہرہ خان کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش، اداکارہ نے افواہوں کو مسترد کردیا
مندر میں اسٹیج منہدم، ایک عورت ہلاک
ہند۔پاک میچ۔اروشی روٹیلا 24 قیراط گولڈ والے آئی فون سے محروم

اُروشی نے انٹرویو میں کہا، "اتراکھنڈ میں میرے نام پر ایک مندر ہے۔ اگر کوئی بدری ناتھ جاتا ہے، تو اس کے بالکل بغل میں ‘اُروشی مندر’ ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا لوگ وہاں آشیرواد لینے آتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، "جب مندر ہے تو لوگ وہی کریں گے۔”

 انہوں نے مزید کہا کہ دہلی یونیورسٹی کے طلباء ان کی تصاویر پر مالا چڑھاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لوگ انہیں "دم دمئی” کہہ کر پکارتے ہیں۔

اداکارہ نے کہا کہ وہ اس بیان کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور ان دعووں پر خبریں بھی شائع ہوئی ہیں جنہیں پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اُروشی کے اس بیان کی مذہبی حلقوں اور مقامی لوگوں نے سخت مخالفت کی ہے۔ بدری ناتھ دھام کے سابق دھارمک ادھیکاری بھون چندر یونیال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُروشی کا دعویٰ "گمراہ کن” ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو مندر موجود ہے، وہ ہندو دیوی اُروشی کے نام سے منسوب ہے، جو ہندو دیومالائی کہانیوں کا ایک حصہ ہے، اور یہ مندر 108 شکتی پیٹھوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ اُن کا (اداکارہ اُروشی کا) مندر نہیں ہے۔ ایسے بیانات ناقابل قبول ہیں۔ حکومت کو ایسے غلط دعوے کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھانا چاہیے۔”

بـرہم کپال تیرتھ پجاری سوسائٹی کے صدر امیت ستی نے بھی اداکارہ کے بیان کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ قدیم مندر دیوی اُروشی سے منسوب ہے، کسی عام شخص سے نہیں۔ ان کا کہنا تھا، "ایسے بیانات یہاں کے لوگوں کے مذہبی جذبات کی توہین ہیں۔”