قرآن پاک کے بے حرمتی کے بعد سویڈن نے توریت، انجیل نذرِ آتش کرنے کی اجازت دے دی، اسرائیل کی مذمت
ڈان میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ہونے والا یہ متنازع احتجاج، اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قرآن پاک کے صفحات کو نذرِ آتش کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
اسٹاک ہوم: سویڈش پولیس نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک احتجاج کے لیے اجازت نامہ دے دیا ہے جس میں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر مقدس کتابوں کو نذر آتش کیا جائے گا جس پر اسرائیل اور یہودی تنظیموں کی جانب سے اظہارِ مذمت کیا گیا ہے۔
ڈان میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ہونے والا یہ متنازع احتجاج، اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قرآن پاک کے صفحات کو نذرِ آتش کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
پولیس کو احتجاج کے لیے دی گئی درخواست کے مطابق مظاہرے میں توریت اور انجیل کو جلانا شامل ہوگا، جو قرآن پاک کی بے حرمتی کا ردِعمل ہے اور یہ آزادی اظہار رائے کی حمایت کا اظہار ہوگا۔
اسٹاک ہوم پولیس نے زور دے کر کہا کہ سویڈش قانون کے مطابق انہوں نے لوگوں کو عوامی طور پر جمع ہونے کی اجازت دی ہے لیکن اس دوران کی جانے والی سرگرمی کی نہیں۔
اسٹاک ہوم پولیس کی پریس افسر کیرینا سکیگرلِنڈ نے کہا کہ ’پولیس مذہبی کتابوں کو جلانے کے اجازت نامے جاری نہیں کرتی بلکہ عوامی اجتماع منعقد کرنے اور رائے کا اظہار کرنے کے لیے اجازت نامہ جاری کرتی ہے، یہ ایک اہم فرق ہے‘۔
اسرائیل کے صدر اسحٰق ہرزوگ سمیت کئی اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں نے فوری طور پر اس فیصلے کی مذمت کی، اسرائیلی صدر نے ایک بیان میں کہا کہ میں واضح طور پر سویڈن میں مقدس کتابوں کو جلانے کی اجازت کی مذمت کرتا ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کی مذمت کی تھی اور میرا دل دکھی ہے کہ یہودیوں کی ابدی کتاب، یہودی بائبل کے ساتھ بھی یہی ہونے جارہا ہے‘۔
عالمی صہیونی تنظیم کے چیئرمین یاکوف ہیگوئل نے ایک بیان میں کہا کہ احتجاج کا اجازت نامہ دینا ’آزادی اظہار نہیں بلکہ یہود دشمنی‘ ہے۔
خیال رہے کہ جون میں سویڈن کی پولیس نے 37 سالہ سلوان مومیکا کے احتجاج کے لیے اجازت نامہ دیا تھا جس کے دوران اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور اس کے صفحات کو نذرِ آتش کردیا تھا۔
احتجاج کا اجازت نامہ آزادانہ تقریر کے تحفظات کے مطابق دیا گیا تھا، لیکن بعد میں حکام نے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ سلوان مومیکا نے مسجد کے بالکل قریب اسلامی مقدس کتاب کے صفحات کو جلایا تھا، کہا کہ انہوں نے ’ایک نسلی گروہ کے خلاف اشتعال انگیزی‘ کے حوالے سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
عراق، کویت، متحدہ عرب امارات اور مراکش سمیت متعدد ممالک نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے پر احتجاجاً سویڈن کے سفیروں کو طلب کیا تھا اور اس کے نتیجے میں 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔
سویڈن کی حکومت نے بھی قرآن پاک نذرِ آتش کرنے کے اقدام کو ’اسلامو فوبک‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ملک کو ’اجتماع، اظہار رائے اور مظاہرے کی آزادی کا آئینی طور پر محفوظ حق‘ حاصل ہے۔