اسدالدین اویسی وقف ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
وقف ترمیمی بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں — اب صرف وہی شخص وقف قرار دے سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو، اور وہ پراپرٹی اسی کی ملکیت ہو۔

نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے وقف ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد یہ بل اب صدرِ جمہوریہ کی منظوری کا منتظر ہے، مگر اسدالدین اویسی نے اسے آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے چیلنج کر دیا ہے۔
اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ترمیم آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہے، جن میں آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، 25 (مذہبی آزادی)، 26 (مذہبی امور کی خودمختاری)، 29 (اقلیتوں کے حقوق) اور A300 جائیداد کے حقوق) شامل ہیں۔
اس سے پہلے کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ محمد جاوید نے بھی اس بل کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ وقف ترمیمی بل میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں — اب صرف وہی شخص وقف قرار دے سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو، اور وہ پراپرٹی اسی کی ملکیت ہو۔
بل میں ‘استعمال کے ذریعے وقف’ (waqf by user) کا تصور ختم کر دیا گیا ہے، اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وقف العل اولاد (waqf-alal-aulad) خواتین ورثاء کے حقوق کو متاثر نہیں کر سکتا۔
اسدالدین اویسی نے لوک سبھا میں اس بل پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایک مسلمان پر وقف جائیداد کا استعمال محدود کیا جا رہا ہے، جب کہ قابض شخص قانونی مالک بن سکتا ہے۔ اور اب غیر مسلم افراد کو وقف بورڈ میں شامل کیا جا رہا ہے، جو آرٹیکل 14 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت برادریوں کو اپنی مذہبی جائیدادوں کا انتظام سنبھالنے کا حق حاصل ہے، پھر مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟”
بل کے تحت مرکزی حکومت کو وقف سے متعلقہ کئی اختیارات سونپ دیے گئے ہیں، جن میں وقف رجسٹریشن، آڈٹ، اور بورڈ کی کارروائیوں کی اشاعت شامل ہے۔ اب CAG یا مرکزی حکومت کے مقرر کردہ افسر کے ذریعے وقف جائیدادوں کا آڈٹ ممکن ہوگا۔
یہ بل اب صرف صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد قانون بن جائے گا، لیکن اس سے پہلے ہی اس کے خلاف قانونی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔