مشرق وسطیٰ

غزہ سے خاتون کا مایوس کن پیغام،اسرائیل نے مجھے قتل نہیں کیا تو میں ممکنہ طور پر خودکشی کرلوں گی

سات اکتوبر کو فلسطینی گروپوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد یہ جنگ 22 ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔

یروشلم: سات اکتوبر کو فلسطینی گروپوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد یہ جنگ 22 ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔

متعلقہ خبریں
نیتن یاہو نے کم وسائل میں بھی لڑنے کا اعلان کیا
اسرائیل رہائشیوں کو رفح سے غزہ کے جنوب مغربی ساحل پر المواسی منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
رفح پر اسرائیلی حملہ، خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے: ڈبلیو ایچ او
اسرائیل غزہ پٹی میں خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے: یو این آر ڈبلیو اے

تنازع شروع ہونے کے بعد سے ایمان باشر نے پلیٹ فارم ’’ ایکس‘‘ کے اپنے اکاؤنٹ پر اپنی ڈائریوں سے اقتباسات شائع کرنا شروع کئے۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ایمان باشر نے اپنی حالیہ پوسٹ میں لکھا "میں اپنی مختصر یادداشتیں لکھنا بند کرنا چاہتی ہوں، میں ناامید اور بے بس محسوس کر رہی ہوں، روح کے بغیر جسم ہے ۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔””مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں روح کے بغیر جسم ہوں” اس جملے نے غزہ کی پٹی میں تباہی کے مرکز میں فلسطینی سلامتی کی صورتحال کو مختصر الفاظ میں بیان کردیا۔

ایمان باشر نے مزید کہا کہ اگر میں زندہ رہی تو مجھے تاحیات علاج کی ضرورت ہوگی۔ اگر اسرائیل نے مجھے قتل نہیں کیا تو میں ممکنہ طور پر خودکشی کرلو گی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ جو کچھ وہ لکھتی ہیں وہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا 5 فیصد بھی نہیں بتاپارہی ہیں۔

ایمان نے بتایا کہ کیسے اسے اپنے چار بچوں کو ایک اجنبی کے پاس کچھ کھانا لانے کے لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ قریبی بازار تک پیدل چلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ ایمان نے واضح کیا کہ بمباری میں تباہی کے بعد بچوں کو دیکھنے جانے کے سفر کے دوران بھی بمباری نہیں رکی۔ اس وقت ایمان نے سوچنا شروع کر دیا کہ شاید وہ اپنے بچوں کی لاشیں ڈھونڈنے کے لیے واپس آ سکتی ہے۔

پھر وہ خالی ہاتھ واپس آئی، کیونکہ نقل مکانی کی جگہ سے جہاں وہ بظاہر ٹھہرے ہوئے تھے اسے کچھ نہیں ملا۔ ایمان نے بتایا میں یہ دیکھ کر واپس آئی کہ کچھ امدادی معاشروں نے انہیں کپڑے کا ایک سیٹ دیا تھا۔ ہم اب خیرات قبول کر رہے ہیں۔

ایمان نے نتیجہ اخذ کیا اور کہا ’’میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں میں کسی کو نہیں جانتی، میرے پاس چھپنے کی جگہ بھی نہیں ہے اور میں بچوں سے دور رو رہی ہوں، چلو، تم اسرائیلیو، اس معاملے کو ختم کردو”

ایمان کے جبر، درد اور مایوسی سے بھرپور ان الفاظ نے دلوں کو دہلا دیا۔ بین الاقوامی انتباہات میں کہا جارہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر مسلط اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں بہت سے لوگ مر جائیں گے۔

تین ہفتے قبل اسرائیل نے غزہ کو اشیائے خورونوش اور ایندھن کا داخلہ روک دیا تھا اور بجلی اور پینے کا پانی بھی منقطع کر دیا تھا۔

دریں اثنا شمالی غزہ سے تقریباً ڈیڑھ ملین فلسطینی اس کے جنوب میں بے گھر ہوئے ہیں۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ افراد پناہ گاہوں، کیمپوں، سکولوں اور دیگر مقامات پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔