بھارت

اسلام‘ تلوار سے زیادہ تعویذ گنڈوں سے پھیلا،مرکزی وزیر ستیہ پال سنگھ بگھیل کا متنازعہ بیان

مرکزی مملکتی وزیر قانون و انصاف نے دیوی رشی نارد پترکار سمان سماروہ سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ تقریب کا اہتمام آر ایس ایس کی میڈیا وِنگ اندراپرستھ وشواسمواد کیندر نے صحافیوں کو ایوارڈس دینے کے لئے کیا تھا۔ بگھیل نے کہا کہ روادار مسلمان گنتی کے ہیں۔

نئی دہلی: تنازعہ پیدا کرتے ہوئے مرکزی وزیر ستیہ پال سنگھ بگھیل نے دعویٰ کیا کہ ”روادار مسلمانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے“ اور یہ رواداری بھی پبلک لائف (عوامی زندگی) میں ماسک لگاکر جینے کا حربہ ہے تاکہ نائب صدرجمہوریہ‘ گورنر اور وائس چانسلر کے عہدے ملیں لیکن ایسے ”مسلم نام نہاد دانشوروں“ کا اصل چہرہ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد بے نقاب ہوجاتا ہے۔

متعلقہ خبریں
ہنومان کے جھنڈے کے بعد کرناٹک میں ٹیپو جھنڈے پر نیا تنازعہ
گائے اسمگلنگ کا شبہ، 4 مسلمانوں پر حملہ
تلنگانہ میں 850 کروڑ مالیتی روڈ پروجیکٹس منظور:گڈکری
اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں امریکہ کا فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں: کملا ہیرس
نماز تراویح

 مرکزی مملکتی وزیر قانون و انصاف نے پیر کے دن دیوی رشی نارد پترکار سمان سماروہ سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ تقریب کا اہتمام آر ایس ایس کی میڈیا وِنگ اندراپرستھ وشواسمواد کیندر نے صحافیوں کو ایوارڈس دینے کے لئے کیا تھا۔ بگھیل نے کہا کہ روادار مسلمان گنتی کے ہیں۔

 میرے خیال میں ان کی تعداد ہزاروں میں بھی نہیں اور یہ رواداری بھی پبلک لائف میں ماسک لگاکر جینے کا حربہ ہے کیونکہ یہ راستہ انہیں نائب صدرجمہوریہ‘ گورنر یا وائس چانسلر کے بنگلہ میں پہنچاتا ہے لیکن جب یہ لوگ ریٹائر ہوجاتے ہیں تو اصل بیانات دیتے ہیں۔

 یہ لوگ عہدہ چھوڑنے کے بعد جو بیانات دیتے ہیں اس سے ان کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے۔ انفارمیشن کمشنر اُدئے مہورکر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہندوستان کو اسلامی بنیاد پرستی سے ضرور لڑنا چاہئے لیکن روادار مسلمانوں کو ساتھ لے کر۔

 مغل شہنشاہ اکبر کی ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کے حوالہ سے مہورکر نے دعویٰ کیا کہ اکبر کے تعلق سے چھترپتی شیواجی کی رائے اچھی تھی۔ اکبر نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے بھرپور کوشش کی۔ مہورکر کے ان ریمارکس کو خارج کرتے ہوئے مرکزی وزیر ستیہ پال سنگھ بگھیل نے اکبر کی کوششوں کو حربہ قراردیا اور الزام عائد کیا کہ جودھابائی سے مغل شہنشاہ کی شادی اس کی ”سیاسی حکمت عملی“ کا حصہ تھی۔

یہ شادی دل سے نہیں ہوئی تھی ورنہ چتوڑ گڑھ کا قتل عام نہیں ہوتا۔ مغل دور کو دیکھئے‘ اورنگ زیب کی حرکتوں کو دیکھئے۔ بعض اوقات مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ہم (ہندو) باقی کیسے بچے۔

بگھیل نے کہا کہ ہندوستان کے برے دن 1192 میں اس وقت شروع ہوئے تھے جب محمد غوری نے راجپوت راجہ پرتھوی راج چوہان کو ہرایا تھا۔ بگھیل نے دھرم پریورتن (تبدیلی ئ مذہب) کا بھی مسئلہ اٹھایا اور الزام عائد کیا کہ ”تعویذ گنڈوں“ کے ذریعہ مسلمان ہونے والوں کی تعداد تلوار کے زور سے مسلمان ہونے والے ہندوؤں سے زیادہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ چاہے وہ خواجہ غریب نواز صاحب ہوں‘ حضرت نظام الدین اولیاء یا سلیم چشتی آج بھی ہمارے لوگ وہاں اولاد‘ نوکری‘ الیکشن ٹکٹ‘ وزارت‘مملکتی درجہ کی وزارت سے کابینی درجہ پر ترقی کی منتیں مانگنے جاتے ہیں۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ اقلیتی فرقہ کے لوگوں کا احساس ہے کہ چونکہ انہوں نے عرصہ دراز تک حکمرانی کی وہ کیسے رعایا بن سکتے ہیں۔

مسئلہ کا حل اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی ہے جس سے ایک نہ ایک دن مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ بگھیل نے کہا کہ مسلمان بچے اگر مدرسوں میں پڑھتے رہے تو وہ اردو‘ عربی اور فارسی سیکھیں گے۔ سارا لٹریچر (ادب) اچھا ہے لیکن ایسی تعلیم سے وہ پیش امام بنیں گے۔ اگر یہ بچے فزکس اور کیمسٹری پڑھیں تو وہ عبدالکلام بنیں گے۔