مذہب

خواجہ معین الدین چشتی ؒکے ہند وستان میں اسلامی کارنامے

مذہب اسلام کی نشر واشاعت کا آغاز چودہ سو سال (۱۴۰۰) قبل مکہ مکرمہ کی پاکیزہ سر زمین سے ہوا، اسکی نورانی کرنیں سارے عالم میں پھیلتی چلی گئی، جن پر تعلیماتِ اسلامی کی صداقت وحقانیت آشکار ہوئی وہ اسلام کی بیش بہا نعمت سے مالامال ہوتے رہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

مذہب اسلام کی نشر واشاعت کا آغاز چودہ سو سال (۱۴۰۰) قبل مکہ مکرمہ کی پاکیزہ سر زمین سے ہوا، اسکی نورانی کرنیں سارے عالم میں پھیلتی چلی گئی، جن پر تعلیماتِ اسلامی کی صداقت وحقانیت آشکار ہوئی وہ اسلام کی بیش بہا نعمت سے مالامال ہوتے رہے۔ بانی اسلام خاتم المرسلین محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں مکہ شریف ومدینہ شریف کو اسلام کے مرا کز بنا دیا، آئے دن کثیر تعداد میں لوگ دامنِ اسلام میں داخل ہوتے گئے، دنیا کے شرق سے غرب تک اسلام پھیلتا گیا، کئی اسلامی سلطنتیں قائم ہوئیں لیکن اسلامی سلطنت سے دنیا کی بڑی آبادی سر زمینِ ہند پانچویں صدی تک اسی نعمتِ عظمیٰ سے محروم تھی۔

تاریخ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلی صدی ہجری کے اواخر میں اشاعتِ اسلام کی خاطر چند مردانِ حق سرزمینِ ہند آچکے تھے، مختلف علاقوں میں خاموش دین ِاسلام کی خدمت انجام دیتے رہے لیکن یہاں کفر وبت پرستی کا دوردورہ تھا، ہر طرف مشرق سے مغرب تک پتھروں، درختوں، جانوروں، چاند وسورج کی پوجا کیجاتی تھی، اذانوں کے بجائے دیولوں وبت خانوں میں گھنٹوں کی آوازیں بلند ہوتیں۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی تشریف آوری سے پہلے ہندوستان کے اکثر لوگ شریعت مطھرہ کے احکام سے بے خبر، خدائے وحدہ لاشریک اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف تھے۔ اس وقت ’پرتھوی راج‘ ہندوستان کا راجہ تھا، اس کا پائے تخت اجمیر تھا، یہ بہت بڑی مضبوط اور مستحکم سلطنت ایک غیر مسلم راجہ کے زیر اثر تھی، چونکہ ہند کے متعدد راجائوں اور راجپوتوں کے اتحاد نے اسے ایک بہت بڑا ملک بنا دیا تھا، اہل اسلام کیلئے ہندوستان کو فتح کرنا آسان نہ تھا، سلطان محمود غزنوی کے متواتر حملوں نے اسلام کی عسکری قوت کا رعب تو قائم کردیا تھا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی ، رب کریم کی چاہت تھی کہ سرزمین ِ ہند میں اسلام کی صدائیں بلند ہوں تو اپنے نیک بندے حضرت خواجہ معین الدین کا انتخاب فرمایا۔

آپ ؒ ۱۴؍ رجب المرجب ؍ سن۵۳۷ھ دوشنبہ کے روز صبح صادق کے وقت سجز میں تولد ہوئے۔ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے کتاب ’’انیس الارواح‘‘ میں اپنی بیعت کا حال خود ان الفاظ میں قلم بند کروایا: ’’مسلمانوں کے دعا گو فقیر معین الدین حسن سجزی ؒ کو شہر بغداد کی مسجد (حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ ) میں قطب عالم حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ کی قدم بوسی نصیب ہوئی اس وقت مشایخ ِ عظام وصوفیائے کرام بھی حاضر تھے حضرت نے میری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ دورکعت نفل ادا کرو ،میں نے فوراً حکم کی تعمیل کی ،پھر فرمایا :قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جائو ، میں نہایت ادب سے قبلہ رخ ہوکر بیٹھ گیا پھر ارشاد ِ شیخ ہوا’’سورہ بقرہ‘‘ کی تلاوت کا ۔میں نے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ سورہ بقرہ پڑھی ،تب فرمایا :۲۱ ؍ مرتبہ کلمہ’’ سبحان اللہ ‘‘کا وِرد کرو ، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ،ان امور کی ادائیگی کے بعد حضرت قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی (جو کلاہ چہار ترکی کہلاتی ہے )میرے سر پر رکھ دی ،اپنی خاص کملی مجھے اڑھائی اور فرمایا بیٹھ جا ؤ،میں فوراً بیٹھ گیا،پھر فرمایا ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لو، میں نے سورہ اخلاص کو ایک ہزار مرتبہ پڑھ لیا ،غرض کہ دیگر اوراد ،وظائف پڑھنے کی تلقین فرمائی‘‘۔ خواجہ اجمیری ؒ چند سالوں تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میںرہے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒنے آپ کو سند ِولایت وخرقہ خلافت عطا فرمائی اور آپ نے اپنا مصلیٰ،نعلین اور عصاوغیرہ تبرکات ِ پیران عظام بھی مرحمت فرمائے ۔ سن ۵۸۳ھ حضرت خواجہ معین الدین سجزی ؒ کو مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوئی، مسجد نبوی میں عبادات وریاضات میں مصروف رہے، وہاں کے قیام میں ایک ایسی نورانی گھڑی آئی جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے بشارت ملی، سیر الاقطاب میں ہے: روضِ رسول سے مــژدہ ملا کہ اے معین الدین تم میرے دین کے معین (مددگار) ہو میں نے تمہیں ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر وظلمت پھیلی ہوئی ہے، تم اجمیر جائو تمہارے وجود سے کفر وظلمت دور ہوگی اور اسلام رونق پذیر ہوگا (سیر الاقطاب) اس بشارت عظمیٰ سے حضرت غریب نواز پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی مسرت وشادمانی کی انتہا نہ رہی، بارگاہ نبوت سے مقبولیت کا مژدہ طریقت اور سلوک کی سخت منزلوں کا تحفہ تھا۔ لیکن وہ کچھ حیران ومتردد بھی ہوئے کہ شہر اجمیر کہاں ہے، سمت سفر کیاہوگی۔ مدینہ سے اجمیر کی مسافت کتنی ہے، راستہ کے پیچ وخم کیا ہیں؟

اسی فکر میں نیند آگئی اور خواب میں تاجدارِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف عظیم حاصل ہوا اور آنحضرت نے آپ کو ایک ہی نظر میں شرق سے غرب تک سارا عالم دکھا دیا، تمام بلادو امصار آپ کی نگاہوں کے سامنے تھے، اجمیر وہاں کا قلعہ اور پہاڑیاں نظر آنے لگیں سرکار نے ایک انار عطا کر کے ارشاد فرمایا ہم تمہیں خدا کے سپرد کرتے ہیں (مونس الارواح) جب بیدار ہوئے تو فرمان رسالت کے بموجب چالیس اولیاء کے ساتھ ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا۔ یہ خواب رب کریم کی جانب سے بشارتِ الٰہی ہے، چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: لَہُمُ الْبُشْرَی فِیْ الْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الآخِرَۃِ (سورہ یونس) اولیاء اللہ کیلئے دنیوی زندگی اور اخروی زندگی میں خوش خبری ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس آیت شریفہ کے متعلق رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا : دنیا کی زندگی میں بشارت وہ سچے خواب ہیں جو خود مومن دیکھتا ہے یا مومن کو وہ خواب دکھایا جاتا ہے(ترمذی)

حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی سیرت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپؒ اشاعتِ دین کا فریضہ انجام دینے سے قبل اتباعِ رسول و اطاعت میں کئی کئی مہینے چلہ کشی کرتے۔ بخاری شریف میں ہے اعلان نبوت سے قبل بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء تشریف لے جاتے وہاں کئی کئی دن عبادت وریاضت میں مصروف رہتے، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا آپ کیلئے توشہ تیار کرکے دیتیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ سب سے پہلے جو وحی کی ابتداء ہوئی وہ نیند میں سچے خواب تھے، آپؒ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر روشن صبح کی مثل آجاتی تھی، پھر آپؐ کے دل میں تنہائی کی محبت ڈال دی گئی تو آپؐ غار حراء میں کئی کئی راتوں عبادت کرتے تھے (بخاری) حدیث شریف میں ہے کہ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیس واں حصہ ہو تاہے، غریب نواز ؒ حکم نبوی کی تعمیل میں مدینہ شریف سے بغداد تشریف لائے وہاں وقت کے مردانِ خدا مشائخ عظام کی صحبت اختیار کی۔ ۵۸۶ھ میں پھر ملک ہندوستان کی طرف سفر کا ارادہ کیا ۔ بخارا، اصفہان، بلخ، سمرقند سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ، اپنے مرشد کے حکم سے رشد ہدایت کا فریضہ انجام دیا، ہزار ہا اہل اسلام کو راہ ِراست پر گامزن کیا اور کئی غیر مسلموں کو دامنِ اسلام میں داخل کیا۔ لاہور میں حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری دی۔ کئی دنوں تک چلہ کیا اور روحانی فیض سے مالامال ہوئے۔

اولیاء کرام اللہ کے نیک وصالح بندے ہوتے ہیں۔ زیارتِ قبور شریعت میں جائز ہے جیسا کہ فرمانِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے: قال النبی ﷺ: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبورِ فزروھا (بخاری) اے مومنو! میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا تو تم قبور کی زیارت کرو۔ خواجہ غریب نواز ؒ لاہور سے ہوتے ہوئے دہلی تشریف لائے، آپؒ یہاں رشد وہدایت، اشاعتِ دین کی خاطر آئے۔ اس سر زمین پر تبلیغ دین کا کام آسان نہ تھا ، سب سے پہلے زبان کی دشواریاں، قیام وطعام کا مسئلہ، ہر قسم کے ناموافق حالات تھے بلکہ ایک بہت بڑا جہاد تھا ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد کے سفر سے واپسی میں اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا: رجعنا من الجہاد الٔاصغر الیٰ الجہاد الٔاکبر۔ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! جس جہاد میں ہم گئے تھے وہاں جانیں تلف ہوتیں ہے، لوگ زخمی ہوتے ہیں، مال ہلاک ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر بھی اور کوئی جہاد ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں ہے، وہ جہاد ِ نفس ہے ۔ یہ روحانی مجاہد اعظم نے ہند میں وہ کارنامے انجام دیے جو فولادی تلواریں انجام نہیںدے سکیں۔ فولادِ تلواریں تو گردنیں کاٹتی ہیں، لیکن ان کی روحانی مقناطیسی تلوار یعنی زبان فیض ترجمان سے نکلنے والے جملے سیدھے کافروں کے دل میں اترتے اور انہیں ایمان کی لازوال دولت سے مالامال کردیتے۔ آپؒ کی شیریں زبان سے جو ہدایتی کلمات نکلتے وہ ہر ایک کے دل کو موہ لیتے اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ، وہ خود کہتا کہ ہمیں اپنے اسلام میں داخل کرلو۔ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ٭ پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔ اس طرح لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ خواجہ ہند الولی کے استقلال ، اخلاص، توکل، جرأ ت ِ ایمانی، اولوالعزمی، عالی ہمتی کا نتیجہ تھا کہ دار الکفر دار الاسلام بن گیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے دہلی سے اجمیر کے سفر کا ارادہ فرمایا، اسے روحانی رشد وہدایت کا مرکز بنانے کی خاطر اجمیر شریف تشریف لائے اور وہیں پر ساری زندگی گزاری۔

جب حضرت خواجہ غریب نواز کا نورانی قافلہ اجمیر پہنچا تو آپؒ نے شہر سے باہر ایک سایہ دار مقام پر قیام پذیر ہونا چاہا، راجہ کے ملازمین نے روکتے ہوئے کہا: آپ یہاں قیام نہیں کرسکتے اس لئے کہ یہاں ہمارے راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں، حضرت کو ناگوار گزرا ، فرمایا میں یہاں سے جاتا ہوں تمہارے اونٹ بیٹھے ہی رہ جائیںگے ، یہ فرما کر آپؒ کھڑے ہوگئے اور انا ساگر کے پاس تشریف لائے جہاں اس وقت بت خانوں کی کثرت تھی، آپ ؒ نے ایک بلند مقام پر (جو اِس وقت حضرت کی چلہ گاہ کے نام سے موسوم ہے) قیام فرمایا جب شام ہوئی تو راجہ کے اونٹ حسب معمول اپنی جگہ پر آئے اور بیٹھ گئے ، حضرت کے ارشاد کے مطابق ایسے بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے، اٹھانے پر بھی نہ اٹھے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انکے جسم زمین سے چپک گئے ہوں، صبح کے وقت جب شتربانوں نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ اٹھ نہ سکے ، اس بات نے انہیں سخت حیرانی میں مبتلا کردیا ، انہوں نے مشورہ کیا اور اس بات پر اتفاق کیاکہ کل ہم نے جس فقیر کو یہاں ٹھہرنے نہ دیا اس کی بددعا لگ گئی ہے۔

پھر وہ سب کے سب حضور کی خدمت میں آئے اور معذرت خواہ ہوئے، حضرت نے ازراہِ شفقت ارشاد فرمایا: جائو بارگاہ الٰہی سے تمہارے اونٹوں کے اٹھنے کا حکم ہو چکا ہے، جب یہ شتربان اونٹوں کے گلہ میں پہنچے یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ سارے اونٹ ازخود اٹھ گئے ہیں۔ (خزینۃ الاصفیاء، مونس الارواح) اس واقعہ کی شہرت شہر اجمیر و اس کے اطراف پہنچی توکئی ہزار غیر مسلم آپ کے دست پر اسلام قبول کئے۔ اور کچھ غیر مسلم حضرات میں اضطراب پیدا ہوگیا، اس درویشِ کامل کے درود مسعو سے قدیم روایتی دھرم کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔

ایک جماعت راجہ پر تھوی راج کے پاس آئی اور کہا یہ اجنبی شخص جو ہمارے شہر کے مندروں کے پاس سکونت اختیار کیا ہوا ہے اس مقام پر اس کا قیام کرنا مناسب نہیں ، کیونکہ وہ ہمارے دھرم سے جدا گانہ دین رکھتا ہے، اس کے اخراج کا حکم صادر کرنا چاہئے۔ مہاراجہ پرتھوی راج نے آپ کو یہاں سے نکالنے کی انتھک کو شش کی لیکن وہ ناکام رہا ،تب اس نے ملک کے ماہر بڑے جادوگروں کو آپ سے مقابلہ کیلئے جمع کیا تاکہ ناکامی و رسوائی کے بعد یہ از خود چلے جائے، مقابلہ کیلئے سارے جادوگر اکھٹے ہوئے جس میں سب سے بڑا جادو گر ’’جوگی جے پال‘ ‘تھا ، اس کو اپنے جادو پر انتہائی ناز وگھمنڈ تھا، جب اس نے اور اس کے چیلوں نے حضرت خواجہ کے خلاف سحر کے کرشموں کا آغاز کیا تو پہاڑ کی بلندیوں سے ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سیاہ سانپ لہراتے ہوئے حضرت خواجہ ؒ کی جانب بڑھے ، آپؒ نے اپنے ارد گرد ایک حفاظتی دائرہ بنایاتھا ، وہ سارے سانپ دائرہ کی لکیر کے قریب آکر بے دم ہوکر رک گئے۔

جے پال کا یہ سحرناکام ہوا تو اس نے اپنے فن کے زور سے آگ کی بارش برسانی شروع کی، جس کی وجہ سے کچھ درخت جل کر راکھ ہوگئے لیکن دائرہ حصار میں جتنے آپؒ کے معتقدین تھے وہ تمام آپ کے ساتھ اس آگ کے شعلوں سے بالکل محفوظ رہے۔ جب آتش سحر سے حضرت خواجہ ؒ اور ان کے ساتھیوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا تو اس نے خود اوپر کی طرف اڑھتے ہوئے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا ، جس وقت وہ فضا میں پرواز کر رہا تھا اس کے اس عمل کو دیکھ کر لوگ دنگ تھے ، تو خواجہ ہند الولی نے اپنے نعلین کو حکم دیا کہ جائو مغرور جے پال کو نیچے اتار لائو ۔ یہ فرمان سنتے ہی نعلین پرندوں کی طرح فضا میں اڑھتے ہوئے جادوگر جے پال کے سر پر مارتے ہوئے خواجہ کے پاس لے آئے۔ جے پال نے غریب نواز کی حقانیت کو دیکھ کر فورا ً عرض کرنے لگا: مجھے بھی دامنِ اسلام میں داخل کرلیجئے۔اس کے ساتھ اس کے کئی ہزار شاگردوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (خزنیتہ الاصفیاء )

تاریخ گواہ ہے کہ آپؒ کے دست مبارک پر تقریباً۹۰ لاکھ لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ہندوستان کے مسلمانوں پر آپؒ کے بڑے احسانات ہیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ آپ ۶ رجب ۶۳۶ ھ اس دارِ فانی کو چھوڑ کر دارِ باقی کی طرف انتقال کر گئے۔ اللہ آپؒ کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭