Uncategorizedتلنگانہ

مسلمانوں کو بھی ادارہ جات مقامی میں تحفظات فراہم کرنے نوید اقبال کی وکالت،بی وینکٹیش کو یاددشت حوالے

مخصوص کمیشن کے نظام آباد دورہ کے موقع پر صدر ضلع بی آر ایس نظام آباد نوید اقبال نے مسلمانوں کو بھی ادارہ جات مقامی میں تحفظات فراہم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے پیش ہوئے اور ایک تحریری محضر بھی صدرنشین بی وینکٹیش کے حوالے کیا۔

نظام آباد: ادارہ جات مقامی میں بہ لحاظ آبادی بی سی‘ ایس سی اور ایس ٹی کو تحفظات کی فراہمی کا گہرائی سے جائزہ لینے کے لئے ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مخصوص کمیشن کے نظام آباد دورہ کے موقع پر صدر ضلع بی آر ایس نظام آباد نوید اقبال نے مسلمانوں کو بھی ادارہ جات مقامی میں تحفظات فراہم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے پیش ہوئے اور ایک تحریری محضر بھی صدرنشین بی وینکٹیش کے حوالے کیا۔

متعلقہ خبریں
آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو تحفظات کا مطالبہ،  کانگریس اقلیتی قائدین و فد کی بی سی ڈی کمیشن سے نمائندگی
محکمہ خواتین، بچوں، معذوروں، بزرگوں اور خواجہ سراؤں کی بہبود کی جانب سے کھیلوں و ثقافتی پروگراموں کا انعقاد
آئینی نظاموں کے درمیان ہم آہنگی کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں: نظام آباد ضلع جج محترمہ سنیتا کنچالا
نظام آباد اور کاماریڈی میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اقدامات
بلدی الیکشن، تحفظات کے سروے کیلئے وقت متعین کرے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کا حکم

نوید اقبال نے کمیشن کے روبرو اپنا مدعا پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ جات مقامی سے پارلیمنٹ تک تمام ایوان نمائندگان میں مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی کے لحاظ سے بہت ہی کم ہے اور آزادی کے بعد سے اس میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ  تلنگانہ کی سماجی اور ثقافتی ساخت میں مسلم کمیونٹی کی نمایاں شمولیت کے باوجود، ان کی نمائندگی کی موجودہ صورتحال شدید عدم مساوات کو اجاگر کرتی ہے، جو فوری توجہ کی متقاضی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ تلنگانہ میں مسلمانوں کو بی سی (ای) زمرہ کے تحت تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو 4% تحفظات حاصل ہیں مگر انہیں سیاسی تحفظات میسر نہیں ہیں۔

سیاسی نمائندگی کے قانونی حق سے محرومی نہ صرف ان کے حاشیے پر جانے کی وجہ بن رہی ہے بلکہ عوامی فیصلہ سازی کے اداروں، جیسے پنچایت سے پارلیمنٹ تک، ان کی آواز کو مزید کمزور کر رہی ہے۔مسٹر نوید اقبال نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کے مسائل کو اس کے اپنے نمائندے ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ایوانوں میں پیش کرسکتے ہیں۔

مسلم برادری ہی واحد برادری ہے جس کی ایوانان عوامی نمائندگان میں نمائندگی مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ بی آر ایس قائد نے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ کی مجموعی آبادی 3,83,17,000 کے مقابلے میں مسلم آبادی 48,66,259 ہے، جو 12.7% بنتی ہے۔تاہم، 17 لوک سبھا نشستوں میں سے مسلمانوں کے پاس صرف ایک پارلیمانی نشست (حیدرآباد) ہے، جو محض 5.8% نمائندگی کے برابر ہے۔

اسی طرح، 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں مسلمانوں کے پاس صرف 7 نشستیں (سب حیدرآباد شہر سے) ہیں، یہ بھی 5.8% نمائندگی کے برابر ہے۔مقامی اداروں میں یہ عدم توازن اور بھی سنگین ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ نظام آباد کے تین بلدیاتی علاقوں (ارمور، بھیمگل، بودھن) میں 86 کونسلروں میں سے صرف 28 مسلمان ہیں (32.55%)۔نظام آباد میونسپل کارپوریشن کے 60 کارپوریٹرز میں سے صرف 20 مسلمان ہیں (33.33%)۔مقامی حکومتوں میں اس قدر کم نمائندگی، اور اعلیٰ سطح پر گرتے ہوئے رجحانات، کمیونٹی کی سیاسی شرکت اور اثر و رسوخ کی انتہائی افسوسناک تصویر پیش کرتے ہیں۔

مقامی حکومتوں میں اس قدر کم نمائندگی، اور اعلیٰ سطح پر گرتے ہوئے رجحانات، کمیونٹی کی سیاسی شرکت اور اثر و رسوخ کی انتہائی افسوسناک تصویر پیش کرتے ہیں۔مسٹر نوید اقبال نے اپنا مدعا پیش کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے لیے منصفانہ نمائندگی کے مطالبے کی تاریخی نظیریں موجود ہیں۔

آئین ساز اسمبلی میں، مدراس کے بی پوکر بہادر جیسے اہم رہنماؤں نے اقلیتوں کے لیے علیحدہ حلقوں کی وکالت کی تاکہ ان کی مناسب نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔ ان کے دلائل یہ تھے کہ اقلیتیں ہر ملک میں موجود ہیں اور انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں اقلیتیں دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ سکیں اور کمیونٹی کے درمیان اختلافات کم ہوں۔اقلیتوں کو سیاسی نظام میں شامل کیا جائے، ان کی آواز سنی جائے اور ان کے خیالات کا احترام ہو۔صرف علیحدہ حلقے ہی مسلمانوں کو حکومت میں بامعنی آواز دے سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی ضروریات کو غیر مسلم بہتر طور پر نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی وہ غیر مسلم افراد کی طرف سے حقیقی نمائندگی حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ علیحدہ حلقے موجودہ فریم ورک سے ہم آہنگ نہیں، لیکن ان دلائل کے اصول اب بھی کمزور نمائندگی والے گروہوں، جیسے مسلمانوں، کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔

نوید نے استدلال پیش کیا کہجن حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں متعدد امیدواروں کے درمیان ووٹ کی تقسیم اکثر انتخابی شکست کی وجہ بنتی ہے۔مذہبی خطوط پر بڑھتی ہوئی پولرائزیشن نے بھی مسلم امیدواروں کے منتخب ہونے کے امکانات کو مزید کم کر دیا ہے۔

یہ کمزور نمائندگی نہ صرف کمیونٹی کو مزید پسماندہ کرتی ہے بلکہ ان کی ضروریات اور خدشات کو مؤثر انداز میں اجاگر کرنے کی صلاحیت کو بھی محدود کرتی ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ ادارہ جات مقامی میں مسلمانوں کی گھٹتی نمائندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمیشن‘ ادارہ جات مقامی میں مسلمانوں کو بھی مناسب تحفظات کی سفارش پیش کرے گا۔