دہلی

ناقص تعلیمی پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت: راہول گاندھی

راہول گاندھی نے کہاکہ بچوں کو جو وژن دینا چاہیے تھا وہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ میں کنیا کماری سے دہلی تک 108 دن پیدل چل کر پہنچا ہوں اور اس دوران میں نے ہزاروں بچوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا کریں گے۔

نئی دہلی: کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے تعلیمی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں، اس لیے پورے تعلیمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

گاندھی نے ہفتہ کو یہاں کانگریس ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کی سمت مختلف ہے۔ ملک میں جو تعلیمی پالیسی چل رہی ہے وہ بچوں میں نئی ​​سوچ پیدا نہیں کر پا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’’بچوں کو جو وژن دینا چاہیے تھا وہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ میں کنیا کماری سے دہلی تک 108 دن پیدل چل کر پہنچا ہوں اور اس دوران میں نے ہزاروں بچوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا کریں گے۔

 صرف ایک لڑکی نے کہا کہ وہ اپنا کاروبار چلانا چاہتی ہے اور لڑکے نے کہا کہ وہ مکینک بننا چاہتا ہے۔ میں نے جن بچوں سے بات کی ان میں سے 99 فیصد نے کہا کہ وہ ڈاکٹر، وکیل، آئی اے ایس، آئی پی ایس بننا چاہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہر سال کتنے بچے آئی ایس بنتے ہیں، ڈھائی سو، لیکن اس امتحان میں پانچ سے چھ لاکھ بچے آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم تعلیم کے ذریعے بچوں کو صحیح راستہ نہیں دکھا رہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تخیل کو قتل کر رہا ہے اور اس نظام تعلیم سے بچوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن یہ کام ایک دو سال میں نہیں ہو سکتا۔ بی جے پی حکومت کی طرف سے لائی گئی نئی تعلیمی پالیسی کی سمت مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو کرائے پر چلنے والا ملک نہیں بلکہ پیداواری ملک بنانے کی ضرورت ہے۔

نئی سوچ کے ساتھ ملک کی ترقی کے لیے ہنر کو عزت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک اسکل ڈویلپمنٹ کو عزت نہیں دی جائے گی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بچوں سے سوال کیا لیکن کسی بچے نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خلاباز بننا چاہتا ہے، پائلٹ بننا چاہتا ہے۔

 ہمارا تعلیمی نظام اس قابل نہیں کہ انہیں نئے پلیٹ فارم سے زندگی گزارنے کے لیے نئے آئیڈیاز دے سکے، اس لیے بچے نئی سوچ کے ساتھ زندگی کا تصور نہیں کر پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ ملک کے دو چار لوگ ہی ملک کی املاک پر قابض ہو جائیں۔ ہر ایک کو موقع ملنا چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب بچوں میں نئی ​​سوچ پیدا ہو۔