شمالی بھارت

وقف ترمیمی بل کی منظور کے بعد کولکتہ، چینائی اور احمد آباد میں احتجاجی مظاہرے

احمدآباد میں احتجاج کا ماحول خاصا کشیدہ دکھائی دیا۔ ایک ویڈیو میں پولیس عہدیدار بزرگ مظاہرین کو سڑک سے زبردستی ہٹانے کی کوشش کرتے نظر آئے، جس سے جذبات مزید بھڑک اُٹھے۔

نئی دہلی: پارلیمنٹ سے وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد جمعہ کو ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر کولکاتا، چینئی اور احمدآباد میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ نمازِ جمعہ کے بعد منعقد ہونے والے ان مظاہروں میں مسلم برادری نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

متعلقہ خبریں
احمد آباد میں تیز رفتار کار ہجوم میں گھس گئی، 9 افراد ہلاک
بی سی سی آئی نے سی ایس کے کپتان کو زبردست خراج پیش کیا
ڈاکٹر اجے کمار اگروال کو کولکتہ میں "لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ” سے نوازا گیا
شمس آباد کی مندر میں مورتی کو نقصان، ایک شخص گرفتار
ریاستی جمعیتہ علماء تلنگانہ کا نئے وقف ترمیمی قانون پر شدید اعتراض، قانونی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان

کولکتہ سے موصولہ ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ بڑی تعداد میں مظاہرین قومی پرچم لہراتے ہوئے اور "ہم وقف ترمیم کو مسترد کرتے ہیں” جیسے پوسٹروں کے ساتھ احتجاجی جلسوں میں شریک ہوئے۔ خبر رساں ایجنسی ANI کے مطابق، ان مظاہروں کا اہتمام "جوائنٹ فورم فار وقف پروٹیکشن” کے تحت کیا گیا۔

احمدآباد میں احتجاج کا ماحول خاصا کشیدہ دکھائی دیا۔ ایک ویڈیو میں پولیس عہدیدار بزرگ مظاہرین کو سڑک سے زبردستی ہٹانے کی کوشش کرتے نظر آئے، جس سے جذبات مزید بھڑک اُٹھے۔

دوسری جانب، چینائی میں مشہور ٹامل اداکار اور سیاستدان وجے کی جماعت "تملگا ویٹری کلگم کی جانب سے ریاست گیر مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا۔ چینائی سمیت کوئمبتور اور تروچیراپلی جیسے بڑے شہروں میں کارکنوں نے "وقف بل نامنظور” اور "مسلمانوں کے حقوق نہ چھینے جائیں” جیسے نعرے لگائے۔

اداکار وجے، جو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ایک "ڈارک ہارس” سمجھے جا رہے ہیں، نے وقف بل کو "غیر جمہوری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بل کی منظوری ملک کے سیکولر ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے وقف بل کو لے کر مرکز کی بی جے پی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست کے مسلمانوں کی زمینیں چھننے نہیں دیں گی۔ ممتا نے بی جے پی پر ملک کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا، جو کانگریس بھی لگا چکی ہے، اور کہا کہ "جیسے ہی مرکز میں غیر بی جے پی حکومت بنے گی، یہ بل منسوخ کر دیا جائے گا۔”

مظاہرین کا ایک بڑا خدشہ یہ بھی ہے کہ نئے وقف قوانین کو پچھلی تاریخوں سے لاگو کیا جائے گا، جس سے موجودہ جائیدادوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم، اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے پارلیمنٹ میں واضح کیا کہ بل مستقبل کے لیے ہوگا اور پچھلی تاریخ سے لاگو نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بیان کی تائید وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی کی۔

نئے وقف قانون کے تحت ریاستی وقف بورڈز اور مرکزی وقف کونسل میں دو غیر مسلم اراکین کی نامزدگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ مزید برآں، جو بھی فرد وقف کے لیے عطیہ دینا چاہے گا، اسے لازمی طور پر یہ حلف دینا ہوگا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے۔

اپوزیشن نے ان نکات کو "مسلمانوں کے خلاف سازش” قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے اس بل کو "آئین پر کھلا حملہ” قرار دیا اور بی جے پی پر معاشرے کو مستقل بنیادوں پر تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔

بی جے پی نے سونیا گاندھی سے معافی کا مطالبہ کیا اور کرن رجیجو نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ راجیہ سبھا میں وقف بل پر 17 گھنٹے اور دو منٹ کی تاریخی بحث ہوئی، جب کہ لوک سبھا میں یہ بحث 12 گھنٹے سے زائد جاری رہی۔

وقف ترمیمی بل پہلے لوک سبھا میں 288 کے مقابلے میں 232 ووٹوں سے منظور ہوا، اور بعد ازاں راجیہ سبھا میں بھی 128-95 ووٹوں سے پاس ہوا۔ اب صرف صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی رسمی منظوری باقی ہے، جس کے بعد یہ قانون کا درجہ حاصل کر لے گا۔