دوسری ذات میں شادی کی سزا۔ خاندان کے 40 افراد کو سرمنڈوانے پر مجبور کر دیا گیا (ویڈیو)
بین ذات شادی کی خبر گاؤں میں پھیلتے ہی لوگوں میں سخت ناراضگی دیکھی گئی۔ گاؤں والوں نے خاتون کے خاندان کو سماج سے باہر نکال دیا اور ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ "شُدّھی کرن" یعنی پاکی کی رسم ادا کریں، تب ہی انہیں دوبارہ سماج میں قبول کیا جائے گا۔

بهرام پور : اڈیشہ کے بهرام پور ضلع میں ذات پات کے تعصب نے ایک بار پھر انسانی حقوق اور سماجی ہم آہنگی پر سنگین سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ واقعہ کاسی پور بلاک کے بیگن گُڑا گاؤں کا ہے، جہاں ایک خاتون کی دوسری ذات میں شادی نے پورے خاندان کو مشکل میں ڈال دیا۔ خاتون کا تعلق درج فہرست قبیلہ (Scheduled Tribe – ST) سے ہے، جبکہ اس کے شوہر کا تعلق پڑوسی گاؤں کے درج فہرست ذات (Scheduled Caste – SC) سے بتایا جا رہا ہے۔
شادی پر گاؤں والوں کا غصہ
بین ذات شادی کی خبر گاؤں میں پھیلتے ہی لوگوں میں سخت ناراضگی دیکھی گئی۔ گاؤں والوں نے خاتون کے خاندان کو سماج سے باہر نکال دیا اور ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ "شُدّھی کرن” یعنی پاکی کی رسم ادا کریں، تب ہی انہیں دوبارہ سماج میں قبول کیا جائے گا۔
اجتماعی منڈن اور قربانی کا مطالبہ
مقامی روایت کے مطابق، گاؤں والوں نے خاندان سے مطالبہ کیا کہ وہ مقامی دیوتا کے سامنے رسم کے مطابق جانور کی قربانی پیش کریں اور پورے خاندان کا اجتماعی منڈن کرائیں۔ خاندان پر یہ بھی دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے یہ رسم پوری نہ کی تو انہیں غیر معینہ مدت تک سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دباؤ میں آ کر انجام دی رسم
سماجی دباؤ اور مسلسل تناؤ کے باعث خاندان کے 40 سے زائد افراد نے نہ صرف مقامی دیوتا کے سامنے قربانی دی بلکہ اجتماعی منڈن بھی کروایا۔ اس کے بعد ہی گاؤں والوں نے انہیں دوبارہ سماج میں قبول کرنے کا عندیہ دیا۔
یہ واقعہ ذات پات کے نام پر ہونے والی ناانصافی اور جبر کی ایک بھیانک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اس واقعے کو مذہبی شدت پسندی اور شخصی آزادیوں پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ بین ذات شادی ہندوستانی قانون کے تحت مکمل طور پر جائز ہے، مگر زمینی سطح پر اب بھی ایسے قدامت پسند رویے انسانی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔